Tuesday, January 31, 2017





سالم سلیم

غزل 
میری ارزانی سے مجھ کو وہ نکالے گا مگر
اپنے اوپر ایک دن قربان کر دے گا مجھے 
منجمد کر دے گا مجھ میں آ کے وہ سارا لہو 
دیکھتے ہی دیکھتے بے جان کر دے گا مجھے
کتنا مشکل ہو گیا ہوں ہجر میں اس کے سو وہ
میرے پاس آئے گا اور آسان کر دے گا مجھے
رفتہ رفتہ ساری تصویریں دمکتی جائیں گی
اپنے کمرے کا وہ آتشدان کر دے گا مجھے
خواب میں کیا کچھ دکھا لائے گا وہ آیئنہ رو
نیند کھلتے ہی مگر حیران کر دے گا مجھے
ایک قطرے کی طرح ہوں اسکی آنکھوں میں ابھی
اب نہ ٹپکوں گا تو وہ طوفان کر دے گا مجھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


غزل 
بدن سمٹا ہوا اور دشتِ جاں پھیلا ہوا ہے
سو تا حدِّ نظر وہم وگماں پھیلا ہوا ہے
ہمارے پاؤں سے کوئی زمیں لپٹی ہوئی ہے
ہمارے سر پہ کوئی آسماں پھیلا ہوا ہے
یہ کیسی خامشی میرے لہو میں سرسرائی
یہ کیسا شور دل کے درمیاں پھیلا ہوا ہے
تمہاری آگ میں خود کو جلایا تھا جو اک شب
ابھی تک میرے کمرے میں دھواں پھیلا ہوا ہے
حصارِذات سے کوئی مجھے بھی توچھڑائے
مکاں میں قید ہوں اور لا مکاں پھیلا ہوا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


غزل 
کچھ بھی نہیں ہے باقی بازار چل رہا ہے 
یہ کاروبارِ دنیا بے کار چل رہا ہے 
وہ جو زمیں پہ کب سے اک پاؤں پر کھڑا تھا 
سنتے ہیں آسماں کے اُس پار چل رہا ہے 
کچھ مضمحل سا میں بھی رہتا ہوں اپنے اندر
وہ بھی بہت دنوں سے بیمار چل رہا ہے 
شوریدگی ہماری ایسے تو کم نہ ہو گی 
دیکھو وہ ہو کے کتنا تیار چل رہا ہے 
تم آؤ تو کچھ اس کی مٹی اِدھر اُدھر ہو
اب تک تو دل کا رستہ ہموار چل رہا ہے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل 
نہ چھین لے کہیں تنہائی ڈر سا رہتاہے
مرے مکاں میں وہ دیوار ودر سا رہتا ہے
کبھی کبھی تو ابھرتی ہے چیخ سی کوئی
کہیں کہیں مرے اندر کھنڈر سا رہتاہے
وہ آسماں ہو کہ پرچھائیں ہو کہ تیرا خیال
کوئی تو ہے جو مرا ہم سفر سا رہتاہے
میں جوڑ جوڑ کے جس کو زمانہ کرتا ہوں 
وہ مجھ میں ٹوٹا ہوا لمحہ بھرسا رہتاہے 
ذرا سا نکلے تو یہ شہر الٹ پلٹ جائے
وہ اپنے گھر میں بہت بے ضرر سا رہتاہے
بلا رہا تھا وہ دریا کے پار سے اک دن
جبھی سے پاؤں میں میرے بھنور سا رہتا ہے
نہ جانے کیسی گرانی اٹھائے پھرتا ہوں 
نہ جانے کیا مرے کاندھے پہ سر سا رہتاہے


سالم سلیم
غزل 
میری ارزانی سے مجھ کو وہ نکالے گا مگر
اپنے اوپر ایک دن قربان کر دے گا مجھے 
منجمد کر دے گا مجھ میں آ کے وہ سارا لہو 
دیکھتے ہی دیکھتے بے جان کر دے گا مجھے
کتنا مشکل ہو گیا ہوں ہجر میں اس کے سو وہ
میرے پاس آئے گا اور آسان کر دے گا مجھے
رفتہ رفتہ ساری تصویریں دمکتی جائیں گی
اپنے کمرے کا وہ آتشدان کر دے گا مجھے
خواب میں کیا کچھ دکھا لائے گا وہ آیئنہ رو
نیند کھلتے ہی مگر حیران کر دے گا مجھے
ایک قطرے کی طرح ہوں اسکی آنکھوں میں ابھی
اب نہ ٹپکوں گا تو وہ طوفان کر دے گا مجھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


غزل 
بدن سمٹا ہوا اور دشتِ جاں پھیلا ہوا ہے
سو تا حدِّ نظر وہم وگماں پھیلا ہوا ہے
ہمارے پاؤں سے کوئی زمیں لپٹی ہوئی ہے
ہمارے سر پہ کوئی آسماں پھیلا ہوا ہے
یہ کیسی خامشی میرے لہو میں سرسرائی
یہ کیسا شور دل کے درمیاں پھیلا ہوا ہے
تمہاری آگ میں خود کو جلایا تھا جو اک شب
ابھی تک میرے کمرے میں دھواں پھیلا ہوا ہے
حصارِذات سے کوئی مجھے بھی توچھڑائے
مکاں میں قید ہوں اور لا مکاں پھیلا ہوا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


غزل 
کچھ بھی نہیں ہے باقی بازار چل رہا ہے 
یہ کاروبارِ دنیا بے کار چل رہا ہے 
وہ جو زمیں پہ کب سے اک پاؤں پر کھڑا تھا 
سنتے ہیں آسماں کے اُس پار چل رہا ہے 
کچھ مضمحل سا میں بھی رہتا ہوں اپنے اندر
وہ بھی بہت دنوں سے بیمار چل رہا ہے 
شوریدگی ہماری ایسے تو کم نہ ہو گی 
دیکھو وہ ہو کے کتنا تیار چل رہا ہے 
تم آؤ تو کچھ اس کی مٹی اِدھر اُدھر ہو
اب تک تو دل کا رستہ ہموار چل رہا ہے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل 
نہ چھین لے کہیں تنہائی ڈر سا رہتاہے
مرے مکاں میں وہ دیوار ودر سا رہتا ہے
کبھی کبھی تو ابھرتی ہے چیخ سی کوئی
کہیں کہیں مرے اندر کھنڈر سا رہتاہے
وہ آسماں ہو کہ پرچھائیں ہو کہ تیرا خیال
کوئی تو ہے جو مرا ہم سفر سا رہتاہے
میں جوڑ جوڑ کے جس کو زمانہ کرتا ہوں 
وہ مجھ میں ٹوٹا ہوا لمحہ بھرسا رہتاہے 
ذرا سا نکلے تو یہ شہر الٹ پلٹ جائے
وہ اپنے گھر میں بہت بے ضرر سا رہتاہے
بلا رہا تھا وہ دریا کے پار سے اک دن
جبھی سے پاؤں میں میرے بھنور سا رہتا ہے
نہ جانے کیسی گرانی اٹھائے پھرتا ہوں 
نہ جانے کیا مرے کاندھے پہ سر سا رہتاہے



ایک چادر میلی سی ، ناول پر تنقید اور پیڑی آرکی 

رحمن عباس
اگر کوئی یہ سیکھنا چاہتا ہے کہ ناو ل کی تنقید کس طرح نہیں لکھنا چاہیے تو بیدی کے ناول ’ایک چادر میلی سی‘ پر شمس الحق عثمانی اوروارث علوی کے مضامین کا مطالعہ کارآمد ہے۔ یہ مضامین اس ناول کی معنویت تک رسائی کے بجائے گمراہی میں اضافہ کرتے ہیں۔ جب تنقید کسی پن پارے سے وہ معنی دریافت کرنے لگ جائے جو فن پارے کا موٹف Motif نہیں تب برآمد شدہ فرضی معنی فن پارے کے وجود ، تشکیل اور آرٹ کے شعور کو بیدار کرنے کے بجائے قار ی کو برآمد شدہ مفروضاتی معنویت کے چیستان میں پھینک دیتا ہے۔ جہاں الفاظ کابے دریغ استعمال ذہن میں اضطراب پیدا کرتا ہے ۔ یہ اضطراب فن پارے کے خوش گوار تجربے کو غارت کرتا ہے۔ معنی کی بے جا تلاش، بہ ظاہر تنقید کو رنگین اور بو قلمونی بناتی ہے لیکن اکثر وبیشتر آرٹ کی سادگی، جادوگری اور جلوہ آفرینی کو لہولہان کر دیتی ہے۔ جس طرح شمس الرحمن فاروقی میر تقی میر کے اشعارمیں وہ معنی ڈھونڈتے ہیں جو وہاں موجود نہیں ہوتے اِسی طرح وارث علوی ’ ایک چار میلی سی‘ اور بیدی کے افسانوں میں معنویت اور رمزیت تلاش کرتے ہیں ۔باوجود اس کہ بیدی کے آرٹ ،کرافٹ اور انسانی زندگی کے متعلق بیدی کے احساسات کو سمجھنے اور سمجھانے میں جس والہانہ عشق میں وارث علوی زندگی بھر گر فتار رہے، وہ قابلِ تقلید اور قابل رشک ہے۔ شمس الحق عثمانی تنقید ی مباحث قائم کرنے سے زیادہ کلرکل کام کاج میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ان کا مسئلہ فن کاری سے زیادہ فن کے معرضِ وجود میں آنے کی تاریخ اور مراحلِ اشاعت ہیں۔
وارث علوی اور شمس الحق عثمانی کی ذہانت اور محنت سے کسے انکار لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اتنی ریاضت کا تقاضا یہ ناول کرتا ہے؟اگر دونوں حضرات کو’ یولی سیس ‘اور’ مائی نیم از ریڈ‘ پر مضمون لکھنا ہوتا تو کیا ہوتا؟ فکشن کی تنقید کا یہ عیب ہے کہ وہ ’ویژ ن‘ پیدا کرنے میں رکاوٹ بن جائے اور معنی کے امکانا ت کی ترسیل میں ناکامی کا شکار ہو۔ علوی اور عثمانی کے مضامین ناول کی کہانی تفصیل سے بیان کرتے ہیں اور ہر اُس بات کی طرف توجہ مرکوز کرتے ہیں جو ہم ناول میں پڑھ چکے ہیں۔ ناول کے تمام کرداروں کے بارے میں ہمیں وہ باتیں بتاتے ہیں جو ناول پڑھتے ہوئے ہم خود محسوس کرتے ہیں۔ البتہ یہ مضامین یہ بتانے میں کامیاب نہیں ہیں کہ ’ایک چادر میلی سی‘ آدمی کے بارے میں وہ کون سی بات سامنے لاتا ہے جس سے ہم واقف نہیں تھے، یا زندگی کی کس سنگلاخ حقیقت کا پردہ چاک کرتا ہے؟ روزمرہ کی زندگی میں موجود کس رَمز کو construct یا deconstruct کرتا ہے ؟ مرد اور عورت کے تعلق کی کس گتھی سے ہمیں آشنا کرتا ہے جس کے بارے میں ہم نے پہلے سنجیدگی سے سوچا نہیں تھا؟ کیا ناول ہمیں کسی ایسی صورتِ حال سے آشنا کرتا ہے جس کا شعور ہماری سوچ میں تبدیلی اوروجدان میں ہیجان پیدا کرے ۔شمس الحق عثمانی اور وارث علوی نے ’ایک چادر میلی سی‘ کی کہانی دہرائی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ ناول اہم کیوں ہے ؟ کہانی فی نفس اہم ہے یا بیدی کے اسلوب کی وجہ سے دلچسپ ہے؟ کہانی کی دلچسپی ،کہانی کی معنویت میں اضافہ کرتی ہے یہ معنی کی غیر موجودگی کو چھپاتی ہے ؟ ہماری تنقید نے یہ ڈسکورس کیوں قائم نہیں کیا کہ ’ایک چادر میلی سی‘ کا مطالعہ ہمارے سابقہ علم، احسا س اور شعور کوکس سطح پر متاثر کرتا ہے؟ کرتا بھی ہے یا نہیں؟ ناول نگار کا تصورِ زندگی اور حسن کیسا ہے، کیاہے ؟ کیا ناول نگار عورت کی سماجی اور خانگی زندگی کی غیر انسانی صورت حال کو پیڑ ی آرکی patriarchy کی چادر کے نیچے چھپا کر اِس بات کا اظہار کر رہا ہے کہ اُس کا شعورِانسانی بالیدہ نہیں ہے؟ 
ٰٰٰٓٓٓ’ایک چادر میلی سی‘ کی تیسری ریڈنگ کے بعد میں ایک سنگین کشمکش سے دوچار ہوا ہوں ۔ ناول پر بنی فلم دیکھی ۔سوچا اچھا ہوا بیدی اِس فلم کو دیکھے بغیر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ (یاد رہے بیدی کا انتقال 11 نومبر 1984 کو ہوا اور فلم 28 اگست 1986 میں ریلز ہوئی تھی۔) یہ فلم ناول کے حسن پر کالک ملنے کا کام کرتی ہے حالانکہ ہیما مالنی کی جوانی، رانو کے بدن کی جمالیات کی بڑی حد تک نمائندگی بھی کرتی ہے۔فلم کے خراب تاثر نے کچھ ایسا اثر کیا کہ بعد مجھے یاد آیا ’ایک چادر میلی سی‘ کالج کے دنوں میں نصاب میں شامل تھی تب گوپی چند نارنگ کا ایک مضمون پڑھا تھا جو بیدی کے افسانو ں کی اساطیری اور تہذیبی جڑوں سے بحث کرتا ہے۔’فکشن شعریات تشکیل و تنقید ‘ میں گوپی چند نارنگ کا مضمون ’بیدی کے فن کی استعاراتی اور اساطیری جڑیں‘ پڑھ کر اطمینا ن ہوا کہ میں جس الجھن کا شکار تھا کم از کم یہ مضمون اس میں اضافہ نہیں کر تا بلکہ بیدی کے اسلوب ، دیو مالائی عناصر اور بیدی اور بیدی کے تصورِ جنس کو سمجھنے میں مددگارہے۔ بلاشبہ یہ مضمون بیدی کی افسانہ نگاری پر ایک عمدہ مضمون ہے اور بیدی کی فنی جہات اور آرٹ کے محرکا ت کو سمجھنے میں معاون ہے۔ نارنگ لکھتے ہیں’ایک چادر میلی سی‘میں واضح طور پر معاملہ حیاتیاتی یعنی عورت کے مرد کو قابو میں لانے اور تولیدِ نسل کے تخلیقی عمل میں اُس سے اپنے قرض کے وصول کرنے کا ہے۔نارنگ اس مضمون میں ناول کی فضا، رانو، رانو اور منگل کے رشتے کی تہذیبی اور انسانی توجیہہ پر روشنی ڈالتے ہیں اور اختصار کے ساتھ اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ ’بیدی کے تخلیقی عمل میں دیو مالائی ڈھانچا پلاٹ کی معنوی فضا کے ساتھ ساتھ از خود تعمیر ہوتا چلا جاتاہے۔ ‘اس مضمون میں نارنگ نے بیدی کے تصورِ جنس سے بھی بحث کی ہے جو نہ صرف ’ایک چادر میلی سی‘ کی جنسی فضا کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے بلکہ بیدی کے فنی نظام کی ایک مشکل کو آسان کرتا ہے۔ نارنگ لکھتے ہیں: ’یہ سامنے کی بات ہے کہ قدیم ہندوستان کا تصورِ جنس سامی تصورِ جنس سے یا جدید مغربی تصورِ جنس سے بالکل مختلف چیز ہے۔ یہ بہت ہی آزادانہ، کھلاڈلا اور بھر پور ہے، روح کی لطافت سے شاداب اور خون کی حدت سے تھرتھرایا ہوا۔سامی تصورکی سخت گیری جو مجازی لگاؤ کو شجر ممنوعہ قرار دیتی ہے ، یہاں نام کو بھی نہیں۔بے شک جسمانی لذت اور حواس کی سرشاری اس کا نقطۂ آغاز ہے لیکن یہ کیفیت اس ہوسناکی اور سفلہ پن کی طرف نہیں لے جاتی جو مغربی مزاج سے مخصوص ہے۔ جسمانی حسن کے آزادانہ اور بیباک اظہار کی وجہ سے یہاں عریانیت کے وہ معنی ہی نہیں جن سے ہمارے موجودہ ذہن آشنا ہیں۔ ‘ (فکشن شعریات: تشکیل و تنقید، صفحہ 107)یہ مضمون بیدی کے اسلوب اور اسلوب کے عناصر کو سمجھنے میں بھی کارآمد ہے۔
***
بات یوں ہے کہ’ایک چادر میلی سی‘ کے حوالے سے میری الجھن میں اضا فہ ایک کہانی نے کیا تھا جو بیدی نے اپنے مضمون ’مختصر افسانہ ‘ میں سنائی ہے۔ بیدی کے الفاظ ہیں:’’ مشرق میں ایک اور عظیم افسانہ لکھا گیا جس کے کردار راجا بھرتری ہری تھے اور ان کی رانی، جو ایک نہایت ہی حسین عورت تھی۔ بھرتری اُس کے گدازجسم کی طرف دیکھتے اور سوچتے:کیا ایسا وقت آئے گا جب اُس کے چاند سے چہرے پر جھریاں چلی آئیں گی؟ چنانچہ کسی ولی نے انھیں ایک سیب دیا اور کہا: ’اِس کے کھانے سے حسن لازوال ہو جاتا ہے، اور انسان لافانی۔‘ بھرتری ہری نے رانی کے حسن کو دوام دینے کے لیے اپنے آپ پر اسے ترجیح دی۔ وہ اس حسینہ کو ہمیشہ عالمِ تاب میں دیکھنا چاہتا تھا۔ لیکن رانی ایک نوجوان دھوبی سے پیار کرتی تھی اور ہمیشہ اسے تندرست اور جوان دیکھنا چاہتی تھی۔ چنانچہ اُس نے وہ سیب دھوبی کو دے دیا۔ جو ایک طوائف پر عاشق تھا اور جو اُس کی زندگی میں مسرت کے لمحے لاتی تھی۔ طوائف نے یہ سمجھ کر کے اُس کا جسم گناہ کی کان ہے۔ وہ سیب بھرتری ہری کی نذر کردیا کیونکہ وہ حاکمِ وقت تھا اور اُس کے دائم قائم رہنے سے لاکھوں، کروڑوں لوگوں کا بھلا اور طوائف کے اپنے گناہوں کا کفارہ ہو سکتا تھا۔۔۔۔۔ بھرتری ہری نے دنیا ترک کردی۔‘‘ اِس کہانی کو بیان کرنے کے بعد بیدی سوال کرتے ہیں :’اس کہانی میں کیا کہا گیا ہے؟ اور چند باتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن میں کہانی کی معنویت پوشیدہ ہونے کا امکان ہے۔ میرا ذہن سوال کرتا ہے کہ ’ایک چادر میلی سی‘ میں کیا کہا گیا ہے؟ 
اور ہر بار میں اس نتیجے پر پہنچا کہ بیدی نے محض کہانی بیان کی ہے اور اس کہانی کا بیان بیدی کے اسلوب کی وجہ سے بے پناہ حسین ہے۔ بیدی کا اسلو ب کیسا ہے اس پر گوپی چند نارنگ اور وارث علوی اظہار خیال کر چکے ہیں۔ اس ناول میں سارا کمال بیدی کے اسلوبِ نگارش کے سبب ہے ورنہ ناول کی کہانی کسی فلاپ فلم کی اسکرپٹ سے آگے نہیں۔ حالانکہ بیدی نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ اس ناول میں انھوں نے وہ زندگی پیش کی ہے جسے انھوں نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ان کا بیان ہے ’یہ کہانی میرے اپنے گانو کی ہے اور اس کے بہت سے کردار حقیقی ہیں۔(علی گڑھ میں خطاب: 512 کلیات راجندر سنگھ بیدی ، جلد دوم ، مرتب وارث علوی ) حالانکہ علی گڑھ میں خطاب میں بید ی نے ہیمنگ وے کے بعض ناولو ں کا ذکر کیا تھا اور کہا تھاکہ ’’میں یہ چاہتا تھا کہ اردو میں اس طرح کا ناول لکھوں جو ایک وحدت بن سکے اور زندگی سے اس کا رشتہ حقیقی اور گہرا ہو۔۔۔۔’ایک چادر میلی سی‘ میں ، میں نے کوشش کی ہے۔‘‘ بیدی نے جس کوشش کی بات کی ہے کیا وہ اُس میں کامیاب ہوئے؟ جبکہ انہی برسوں One Hundred Years of Solitude (Gabriel Garcia Markquez), A Clockwork Orane (Anthony Burgess), Catch-22 (Joseph Heller), The French Lieutenant's Woman( John Fowles), Cancer Ward (Aleksandr Solzhenitsyn), Herzog (Saul Bellow), The Golden Notebook (Doris Lessing), The Joke (Milan Kundera), and A House of Mr Biswas( V S Naipaul) کے علاوہ سیکڑوں اہم ناول ادب کی دنیا میں سامنے آچکے تھے۔
’ایک چادر میلی سی ‘ کے بارے میں جو فلسفیانہ رائے وارث علوی کی ہے یا متن کی جس طرح تشریح شمس الحق عثمانی نے کی ہے اس سے پرے ، خود بیدی نے ناول کی کہانی کے بارے میں ایک مضمون ’گیتا‘ میں لکھا ہے : ’ایک چادر میلی سی‘ کی کہانی ہماری مروجہ فلمی کہانیوں سے یکسر الگ تھی۔ چھوٹتے ہی اس کی نائیکہ رانو چار بچوں کی ماں دکھائی دیتی تھی۔ پھر اپنی بدکرداری کے کارن اس کا پتی قتل ہو جاتا ہے اور رانو کو اپنے دیور پر چادر ڈالنا، اس کے ساتھ شادی کرنا پڑتی تھی ، جو عمر میں اس سے گیارہ سال چھوٹا تھا اور جسے اس نے ایک بچے کی طرح پالا تھا۔ گیتا کو رانو کے کردار میں ایک بڑی رینج دکھائی دی اور وہ اس پر مرمٹی۔رانو اور گیتامیں کیا ممثلت تھی؟ غالباً یہی کہ دونوں نے دکھ دیکھا تھا۔ اپنی فلسفیانہ تحلیل میں رانو دیوی تھی کیونکہ اس نے زندگی کو ایک بھر پور طریقے سے جیا۔ اس نے مارکھائی، مار۔ اپنے پیٹ ، اپنی بیٹی، اپنی محبت کے لیے ،اس نے میٹھے مالٹے، شراب کی بوتل توڑی اور پھر اپنے دیور کو رام کرنے کے لیے اسے پلائی بھی۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود دیور نے اس کے سارے پاپ چھما کردے۔یہی نہیں وہ خود دیوی ہوگئی۔۔۔۔دَیا اور کرونا کے پرساد بانٹنے لگی۔۔۔رانو کے کردار نے گیتا کے دل میں ایک عجیب سی گھلاوٹ پیدا کر دی تھی اور وہ جان گئی تھی کہ زندگی کے بھلے برے کے آخر میں موکش ہے۔(گیتا: 486 کلیات راجندر سنگھ بیدی جلد دوم)
مرد اور عورت کی زندگی کی اس کہانی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ عورت ایثارِ نفسی اور گھر گرہستی کے لیے ہر طرح کی قربانی دیتی ہے اور مرد کی سفاکی کے برعکس ممتا کی مورت بن جاتی ہے۔اگر ناول کا یہ مرکزی تھیم ہے تو اس میں کونسی نئی بات یا جدت یا انسانی زندگی کی پے چیدگی کی کونسی تہہ داری ہے۔ہندستان کا وہ کونسا گانو یا شہر ہے جہاں عورت قربانی نہیں دیتی، شوہر کا مار نہیں کھاتی اور روزانہ اپنی ذلت میں اضافہ نہیں کرتی۔ ہم یہ سوال کیوں نہیں کر تے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جس کے سبب عورت ایک ایسی مخلوق میں بدل گئی ہے جو ذلت، اذیت اور کسم پرسی میں خوش رہتی ہے ۔ ذلت و رسوائی کی ماری عورت کو بیدی کیوں دیوی تصور کرتے ہیں؟ 
ہمارے سماج میں عورت کا وجود اِس سماج کے زوال کا اشاریہ ہے جہاں اُس کی شناخت دراصل معدوم ہو چکی ہے۔ رانو کے کردار میں یقیناًبڑی رینج ہے لیکن بیدی نے رانو کو ایک مرد کی نظر سے زیادہ درشایا ہے ۔ یہ سفاک حقیقت نگاری نہیں ہے بلکہ پیٹری آر کی patriarchy کی عینک سے د یکھی گئی ایک تصویر ہے جس میں ذلت کی ماری عورت کو ہیروئک بنا کر معاشرے کے سفاکی کو کلین چٹ دی جاتی ہے۔ عورت کے وجود کی تذلیل کو مذہبی اور اساطیر ی رنگوں سے سجایا گیا جس کا منشا ،رانو کی اذیت اور المناکی کو قابلِ برداشت بنانا ہے۔مذہبی ، سماجی اور معاشرتی منظرنامہ عورت کی شناخت کے بحران کو اجا گر کرنے کے بجائے شناخت اور ذات کی موت کو پرکشش بنانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے جس کی جڑیں اساطیر اور تہذیبی پس منظر میں نہیں بلکہ پیٹری آرکی ((Patriarchyمیں دفن ہیں۔ یہ کام بیدی نے شعور کی سطح پر نہیں کیا ہے بلکہ بیدی کے مرد اورعورت کے تصور کا غیر شعوری اظہار ہے۔ بیدی کا تصورِ جنس ،تصورِ عورت سے مختلف ہے اور ابھی تنقید نے ان دونوں میں امتیاز نہیں کیا ہے ۔ اگر بیدی اس بات سے واقف نہیں تھے کہ بھارت خواتین دشمن معاشرہ ہے تو بیدی کا یہ ناول اس بات کی توثیق کرتا ہے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مردانہ سوچ، عورت دشمن معاشرے کی خالق ہے۔ بیدی معاشرے کے فرد اور مرد ہونے کے ناتے عورت کو اُس کی مجروح اور المناک صورت میں دیوی کادرجہ عطا کرتے ہیں۔یہ بتانا غیر ضروری نہیں کہ حالیہ دنوں پارلیمان میں پیش کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق 2012-14 کے دوران 24700 عورتوں کا قتل کیا گیا ہے۔ دیوی کاسمان دیے بنا یہ قتل ممکن نہیں تھا۔ رانو کے صبر کے بارے میں وارث علوی نے ایک متنازعہ بات لکھی ہے اور اِس کا سبب ان کی بیدی کی پرستش ہے۔ وہ لکھتے ہیں:’صبر شخصیت کے ارتباط کو قائم رکھنے کا مظلوم کا سب سے طاقتور حربہ ہے۔ صبر کی طاقت ہی رانو کو غم پسند اور اذیت پسند بننے نہی دیتی، جو کمزور شخصیت کے بیمار ذہنی رویے ہیں۔ صبر طاقتور ذہن کا وصف ہے جو سوچتا ہے کہ یہ دن بھی گذر ہی جائیں گے۔‘ ( ایک چادر میلی سی : ۴۴۱ ۔ راجندر سنگھ بیدی ایک مطالعہ)۔ اسی مضمون میں وارث علوی نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایثار نفسی میں وہ (رانو) دیوی ہے لیکن مرد کو دیوی بن کر نہیں سیج کی ویشیا بن کر ہی رام کیا جاسکتا ہے۔ اور رانو ہی کرتی ہے۔ (ایضاً) 
***
بیدی پنجاب کی زندگی کو اس ناول میں قید کرنا چاہتے تھے ۔ اس آرزو کے ساتھ علاقائیت کی ایک متھ بھی ان کے دل میں بسی ہوئی تھی جس کا اظہار انھوں نے کچھ یوں کیا ہے :’’پنجابی دنیا کا ماتم نہیں کرنے آیا اور نہ فلسفہ دانی اس کا نصب العین ہے۔ وہ جو اندر سے ہے وہ ہی باہر سے ۔۔اس کے جیون کا رہسیہ ہی یہ ہے کہ کوئی رہسیہ نہیں۔ ۔۔۔پنجاب اور پنجابی کبھی ناش نہیں ہو سکتے۔ نہ معلوم انھوں نے کون سی امر کتھا سنی ہے جس میں وہ اُونگھ بھی گئے اور پا بھی گئے۔ پی بھی گئے اور چھلکا بھی گئے۔ زندگی کے رونے دھونے سے ان کی تپسیا پوری نہیں ہوتی۔ ۔۔ہاں۔۔ہنسنے کھیلنے، کھانے اور پہننے ہی میں ان کا موکش ہے۔ ‘‘ (پیش لفظ ۔۔ایک چادر میلی سی۔۵ فروری ۱۹۶۴ ) بیدی نے ناول کے پلاٹ کی تعمیر اسی خیال پر رکھی ہے اور اسی لیے تشدد، قتل، عصمت دری، جذبۂ جنس کی سرمستی اور توہمات کے پس منظر میں زندگی کا سارا رس کس نچوڑکر موکش حاصل کرنے کا ایک سفر جاری ہے۔ بید ی نے پنجاب کی زندگی کا عکس پیش کرنے میں بلاشبہ کامیابی حاصل کی ہے ۔ دوسری طرف پنجاب کی زندگی کی رنگینی کے ساتھ معاشرتی سطح پر پنجابی افراد کے بارے میں ایک رہسہ بھی سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کی زندگی کا کوئی رہسیہ نہیں ہے۔ 
ناول میں ایک قابلِ ذکر خوبی وہ بھی ہے جس کی طرف وارث علوی نے اشارہ کیا تھا کہ’ یہ ناول عورت کی بپتا کا افسانہ نہیں بلکہ نامساعد حالات اور حیات کش قوتوں کے خلاف ایک عورت کی جدوجہد کا افسانہ ہے ‘،لیکن یہ جدوجہد محض رانو کی جدوجہد کے سبب قابل مطالعہ نہیں ہے بلکہ بیدی کے اسلو ب کا جادو ہے کہ ایک معمولی فلمی پلاٹ کو انھوں نے ایک قابلِ ذکر ناول میں بدل دیا۔ یہی بڑے لکھنے والے کی پہچان ہے۔
بیدی کہیں نہ کہیں ہمینگ وے کی ناول نگاری کو پسند کرتے تھے ۔انھوں نے لکھا ہے ’خودکشی سے چند ہی مہینے پہلے ہیمنگ وے نے کہا تھا کہ ’’میں نے اپنی تحریروں میں طالسٹائی اور بالزاک، موپاساں اور چیخوف کو سمو لیا ہے‘، اور یہ امر واقع ہے کہ ان کی کہانیوں میں ہمیں ان سب استادوں کا ایک خوب صورت سا امتزاج نظرآتا ہے۔‘‘ (مختصر افسانہ ، صفحہ۵۱۷) جبکہ’ ایک چادر میلی سی‘ میں ہمیں کسی استا د کا کوئی رنگ نہیں ملتا ۔یہ ناول اپنی معراج میں صرف اور صرف بیدی کے اسلوب سے مزین ہے۔ناول کی ادبی قدروقیمت بھی اِسی ارفع اسلوب میں پوشیدہ ہے 



ٹوم اولٹر


نوشتہ بماند سیہ بر سفید 
(قسطِ اوّل)
اس شمارے میں ہم مشہور تھیٹر آرٹسٹ اور فلم ادا کار تھومس بیچ اولٹر (Thomas Beach Alter) المعروف بہ ٹوم اولٹر (Tom Alter) کی خود نوشت سوانح کی پہلی قسط شائع کررہے ہیں جو انھوں نے خصوصی طور پر ’اردو ادب‘ کے لیے تحریر کی ہے۔ٹوم اولٹر نے وعدہ کیا ہے کہ وہ سرِ دست اپنی خود نوشت سوانح کے کم سے کم پانچ باب ضرور لکھیں گے جن میں پہلا باب ان کے مختصر حالاتِ زندگی اور ان محرکات پر مبنی ہوگا جو انھیں تھیٹر اور فلم کی دنیا کی طرف لے گئے۔ اس کے بعد کے ابواب ان کی اردو تھیٹر سے وابستگی، ہندستان میں انگریزی تھیٹر اور اس سے ٹوم اولٹر کا تعلق، فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا (FTII) پونے اور امریکہ میں ان کے دورِ طالبِ علمی اور اس وقت کے سیاسی و ثقافتی حالات اور بمبئی کی فلمی زندگی پر مشتمل ہوں گے۔ ٹوم اولٹر جب امریکہ میں تھے تو وہ زمانہ امریکہ اور ویت نام کی جنگ کا زمانہ تھا۔ ہمیں توقع ہے کہ ٹوم اولٹر جو کسی بھی طرح اصطلاحی اردو والوں میں شمار نہیں ہوسکتے، ان کی اردو ادب، ثقافت اور تہذیب نیز تھیٹر سے وابستگی کے کچھ مرقّع یہ خود نوشت سوانح قارئین کے لیے ضرور پیش کرسکے گی۔ غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی نے ٹوم اولٹر کو ڈرامے کا انعام (ہم سب غالب انعام براے اردو ڈرامہ) 2014 میں دیا جو اس بات کا غماز ہے کہ اردو دنیا نےاردو ڈرامے کے لیے ان کی خدمات کا دیر سے ہی سہی مگر اعتراف کیا۔ 
(ادارہ )

آج یکم مئی (May Day) 
یعنی مزدوروں کا دن ہے جس میں ہر وہ شخص چھٹی منانے کا حق دار ہوتا ہے جو کسی بھی سطح پر خود کو
 مزدور تصوّر کرے۔ فلمی دنیا کے بھی بہت سے لوگ اِس دن کام نہیں کرتے مگر میں آج بھی اس لیے کام کر رہا ہوں کہ موجودہ سامراجی نظام نے مزدوروں کے حالات اتنے خراب کردیے ہیں کہ اب ان کے لیے یکم مئی کو بھی چھٹی منانا ممکن نہیں رہ گیا ہے۔ اپنی خود نوشت سوانح کی تحریر کا کام بھی میں آج ہی شروع کررہا ہوں کہ یومِ مئی سے زیادہ مناسب دن ایک مزدور کے لیے دوسرا نہیں ہوسکتا۔2016 کی ایک افادیت یہ بھی ہے کہ اس برس میرے خاندان کو ہندستان میں آئے ہوئے پورے سو برس ہوگئے۔
میں 22جون 190 کو پیدا ہوا، اس اعتبار سے اب میری عمر تقریباً 66 برس ہے۔ خواجہ احمد عبّاس جب ساٹھ سال کے ہوئے تو انھوں نے اپنی خود نوشت سوانح (I am not an Island) لکھنی شروع کی تھی۔ خواجہ احمد عباس نے کسی اور ایک مقام پر ایک بڑی اہم بات کہی تھی جو ہم سب کو یاد رکھنی چاہیے :
’’ 7جون 1914 (ولادت پانی پت) سے دسمبر 1976 (بمبئی) تک میرے حصّے میں جتنے بھی شب و روز آئے ہیں ، ان پر میرا کوئی اجارہ نہیں۔
میں خواجہ احمد عبّاس ، کہانی کار، صحافی، فلم سازاور ہدایت کار کے روپ میں پَل پَل جیتا رہا ہوں۔ کتنی بار سوچا ہے کہ خود کو کسی ایک سانچے میں ’’فٹ‘‘ کرلوں، تاکہ یہ شب و روز میرے اپنے ہوجائیں لیکن یہ دیکھ کر اور سوچ کر کہ میری نسل نے جس ادبی، صحافتی، سیاسی اور سماجی انقلاب کی بنیاد رکھی تھی وہ ابھی تک مکمل نہیں ہوا ہے، میں نے خود کو علاحدہ علاحدہ شعبوں میں اس لیے تقسیم کردیا ہے کیوں کہ جب انقلاب آتا ہے تو وہ زندگی کے صرف ایک شعبے میں نہیں آتا بلکہ زندگی ، سیاست ، ادب ، صحافت، کلچر، زبان، ثقافت اور معاشیات کے مختلف النوع پہلوؤں کو بھی اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔‘‘ 
خواجہ احمد عباس نہ صرف وسیع الجہات شخصیت کے مالک تھے بلکہ اپنی غیر معمولی دیانت داری اور سوشل کمٹ منٹ نیز اصولوں کے معاملے میں کسی بھی قسم کی مفاہمت نہ کرنے کی وجہ سے بمبئی کی فلمی دنیا میں ان کی جو عزّت تھی اُس کی دوسری کوئی مثال شاید ہی ملے۔ میری بھی یہ مسلسل کوشش رہتی ہے کہ میرے پلے کسی نہ کسی زاویے سے سماجی مسائل کی نشا ن دہی ضرور کریں۔ ان 
کی زبان اس سماجی پیچیدگی کی آئینہ دار ہو جس کی عکّاسی پلے میں کی گئی ہے۔ 
انگریزی میں اکثر خود نوشت سوانح نگار To pegin with the beginning کے اصول پر عمل کرتے ہیں۔ میرے جیسے شخص کے لیے جو وقت کی قلّت کی وجہ سے اپنی تحریروں کو بہت کم وقت دے سکا ہے، اس تحریر کی ابتدا کے لیے شروعات سے شروع کرنے کا طریقہ آسان ہے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ میرے اردو کے استاد نے بہت سختی کے ساتھ لفظ شروعات کے استعمال کی ممانعت کی تھی کیوں کہ استادِ محترم کے مطابق یہ لفظ از روے قواعد غلط ہے مگر اردو جیسی زبان کی قوت ہی لفظوں کو اپنی مخصوص لسانی ساخت میں ڈھال لینا ہے، اس لیے، مجھے Begin from the beginning کے لیے شروعات سے شروع کرنے کا فقرہ اپنی نہایت محدود علمی صلاحیتوں کی وجہ سے مناسب معلوم ہوتا ہے۔
میری والدہ مرحومہ باربرا صاحبہ نے مجھے ایک بہت ہی اچھی بات بتائی تھی کہ جس مقام پر ایک بچّہ رحمِ ماد ر میں اپنا وجود قائم کرتا ہے ، اصولاً اس کی جاے پیدائش وہی جگہ ہونی چاہیے۔ اس اصول کی رو سے میرے وجود نے رحمِ ماد ر میں جگہ تو مری جو موجودہ پاکستان کا پُر فضا پہاڑی مقام ہے، میں بنائی لیکن پیدائش کا مقام مسوری ہے جو اَب ہندستان کے صوبۂ اُترا کھنڈ میں ہے اور میری پیدائش کے وقت اترپردیش میں تھا ۔مَری اور مسوری دونوں ہی سے ہمارا خاص تعلق ہے کیوں کہ مری میں ایک کرسچن اسکول ہے جس کے قیام میں میرے دادا ایم. اے. اولٹر نے فیصلہ کُن رول ادا کیا تھاجو بعد میں مسوری کے مشہورِ زمانہ Woodstock اسکول کے پرنسپل بھی رہے۔ 
مَری، پاکستان کا وہ کرسچن اسکول اب بھی چل رہا ہے۔ اس کا نام ہی ’مری کرسچن اسکول ‘ ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اس اسکول پر تقریباً بیس سال پہلے ایک حملہ ہوا تھا جس میں کئی لوگ مارے گئے تھے۔ 
میرے دادا اور دادی ٹھیک سو سال پہلے 1916 میں پہلی عالمی جنگ (First World War) کے زمانے میں ہندستان آئے تھے اور پنجاب کے اس حصّے میں جو اَب پاکستان میں ہے، سکونت پذیر ہوگئے تھے۔ خاندان کے افراد راول پنڈی، مری، پشاور اور سیالکوٹ کے علاقے میں رہتے تھے۔ میرے والد کی پیدائش سیالکوٹ کی تھی۔
مغربی ممالک اور مغربی نژاد ان خاندانوں میں بھی جو ایشیا میں بس گئے ، خاندان کی تفصیلات کو محفوظ کرنے کا عمل عام ہے مگر اغلب ہے 
کہ ہمارے خاندان میں اب یہ تفصیلات موجود نہیں یا کم سے کم مجھے ان کا علم نہیں۔
میری والدہ کے خاندان کا تعلق یونائیٹڈ اسٹیٹ کے اس علاقے سے ہے جسے نیو انگلینڈ کہتے ہیں اور والد صاحب کے خاندان کا تعلق ہائی اسٹیٹ سے ہے لیکن اس سلسلے میں بھی میرے پاس تفصیلی معلومات شاید اس لیے نہیں ہے کہ ہمارے خاندان کو سو سال تو ہندستان ہی میں ہوگئے ہیں اور اب یہاں ہماری پانچویں نسل ہے ۔ بیٹے جمی اولٹر نے راجستھان کے ایک ہندو خاندان میں شادی کی ہے اور بیٹی افشاں امریکہ میں قیام پذیر ہے۔
میری پیدائش کے زمانے میں میرے والدین الہ آباد میں اس لیے رہتے تھے کہ والد صاحب ایونگ کرسچن کالج(Ewing Christian College) میں انگریزی کے اُستاد تھے۔ ایک زمانے میں اس کالج کا بڑا نام تھا۔ اردو کے مشہور مصنّف ابنِ صفی اور صاحبِ اسلوب اور کج کلاہ شاعر مصطفےٰ زیدی بھی اسی کالج کے طالبِ علم رہ چکے ہیں۔ یہ دونوں ہی پاکستان چلے گئے تھے۔ مصطفےٰ زیدی نے سول سروس جوائن کی مگر دنیا کے معاملات سے ان کی پوری طرح عدمِ واقفیت کے سبب ان کی زندگی کا خاتمہ پُر اسرار موت پر ہوا۔ 
میرے والد نے ایونگ کرسچن کالج 1946 میں جوائن کیا تھا۔ تقسیمِ ہندستان کے وقت وہ الٰہ آباد ہی میں تھے۔میرے والد الہ آباد سے وابستہ دو مخصوص واقعات کو خاص طور پر یاد کرتے تھے جن میں ایک تو اس لمحے کے غیر معمولی تاثر سے وابستہ تھا جب آزادی کی رات پنڈت نہرو کی مشہورِ زمانہ تقریر150150 Tryst with Destiny جو ریڈیو سے براڈ کاسٹ ہوئی تھی۔ دوسرے اس لمحے کو جب گاندھی جی کا انتقال ہوا اور ان کی راکھ کو گنگا میں بہانے کے لیے الہ آباد لایا گیا۔ اس وقت آل انڈیا ریڈیو والوں نے براہِ راست نشریات کے مقصد سے ایک بہت بڑا ٹاور کھڑا کیا تھاجس پر ایم. ڈیملو کے ساتھ میرے والد بھی بیٹھے تھے۔ میرے والد مجھے بتاتے تھے کہ آٹھ گھنٹے تک یہ لوگ اوپر بیٹھ کر وہاں سے آل انڈیا ریڈیوکے لیے کمنٹری کرتے رہے مگر اس آٹھ گھنٹے کے عرصے میں وہاں تمام وقت سنّاٹا چھایا رہا۔ کوئی کسی سے بات نہیں کر رہا تھا۔ پھر نہرو اور پٹیل اس کشتی میں آئے جس میں گاندھی جی کی آخری رسوم کے بعدکی باقیات گنگا کے حوالے کرنے کے لیے رکھی ہوئی تھیں۔ تین چار لاکھ لوگوں کامجمع بڑی خاموشی سے یہ نظّارہ دیکھ رہا تھاجو اس غیر معمولی عزت و احترام کا علامیہ تھا جو عوام کے دلوں میں اپنے اس عظیم رہ نما کے لیے تھی۔
میرے والدین نے مسوری اور دہرہ دون کے بیچ راج پور جو اَب ایک بڑا قصبہ بن چکا ہے، میں ایک آشرم قائم کیا تھا جس کا نام انھوں نے ’مسیحی دھیان کیندر‘ رکھا تھا۔میری پرورش اسی راج پور یا مسوری میں ہوئی۔ راج پور قصبے میں اچھا خاصا مارکیٹ اور بازار تھا جہاں میں رہتے تھے لیکن تقسیم کے وقت سب کو وہاں سے نیست و نابود کردیا گیا۔ جب میں چھوٹا تھا تو دیکھتا تھا کہ وہ سب دوکانیں اور عمارتیں خاکستر ہوچکی ہیں جو کبھی مسلمانوں کی ملکیت تھیں۔ میں اپنے والد کے ساتھ جب وہاں سے گزرتا تھا تو اکثر اُن سے پوچھتا تھا کہ ڈیڈی یہ دوکانیں اور عمارتیں ایسی کیوں ہیں تو وہ کچھ بتاتے نہیں تھے۔ بعد میں جب میں تھوڑا بڑا ہوا، سمجھ لیجیے کہ کوئی دس سال کا تو میری والدہ نے مجھے بتایا کہ یہ سب مسلمانوں کی دوکانیں اور مکانات تھے جنھیں تقسیمِ ہندستان کے وقت نذرِ آتش کرد یا گیا۔ شاید میرے والد صاحب ایسے دکھ اور درد سے میرے معصوم ذہن کو دور رکھنا چاہتے تھے ۔ 
آزادی کے بعد ایک طرح سے ہمارے خاندان کا بھی باقاعدہ بٹوارہ ہوا۔ ہمارے دادا اور دادی دونوں پاکستان میں رہ گئے۔میرے دادا کا بہت جلدی غالباً 1952-53 میں انتقال ہوگیا، اس لیے، ان کے بارے میں مجھے کچھ یاد نہیں ہے لیکن میری دادی تقسیم کے بعد بہت دنوں تک حیات رہیں۔ وہ بالکل میم صاحبہ کی طرح تھیں۔ ہم لوگوں سے ملاقات کرنے کے لیے وہ جب بھی ہندستان آتی تھیں تو بہت فخر سے کہتیں کہ میں تو پاکستانی ہوں۔ دادا کے انتقال کے بعد وہ امریکہ چلی گئیں۔ میری دادی کی ایک دل چسپ بات یہ تھی کہ وہ جب جب ہندستان آتی تھیں تو یہاں کی ہر چیز میں کوئی نہ کوئی نَقص نکالتی تھیں۔ مثلاً سڑکوں اور ٹریفک کو لے کر وہ اکثر کہتیں کہ پاکستان میں تو ایسا نہیں ہے ۔وہاں تو سڑکیں کافی کشادہ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ سُن کر ہم ان سے خفا ہوجایا کرتے تھے کہ یہ پاکستان کی کیوں تعریف کرتی رہتی ہیں۔ بہر حال ہند و پاک کے درمیان ہونے والے عجیب و غریب بٹوارے سے ہمارا خاندان بھی محفوظ نہ رہ سکا۔
بٹوارے کے وقت جو ہمارے سب سے چھوٹے چچا تھے وہ ہندستان میں ہی تھے۔والد صاحب کے دو اور بھائی150 جو بیچ کے تھے150 وہ امریکہ میں تھے۔والدین اور چھوٹے چچا سب اس طرف یعنی ہندستان میں رہے اور دادا دادی نے پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی۔ وہ زمانہ تو میں نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھالیکن جیسا کہ میں کہہ رہا تھا کہ میرے والد کو بہ طورِ خاص تاریخ میں اور ان چیزوں میں بہت زیادہ دل چسپی تھی جن کا تعلق تقسیمِ ملک کے واقعات سے تھا۔ وہ اکثر صبح کے ناشتے پر تقسیمِ ہندستان، آزادی، ڈیموکریسی اور مذہب کی باتیں کرتے تھے۔ بٹوارہ کیوں ہوا، اس کی کیا ضرورت تھی جیسے سوالوں نے انھیں زندگی بھر پریشا ن رکھا۔ میرے والد کو کمیونزم میں دل چسپی تھی اور وہ مولانا آزاد کو بھی بہت پسند کرتے تھے۔
                 (جاری   )           

Monday, January 30, 2017




عرفان ستارکے شعری مجموعہ ساعت امکاں سے ۔

مجلسِ غم نہ کوئی بزم ِ طرب، کیا کرتے

گھر ہی جا سکتے تھے آوارہِٗ شب، کیا کرتے


یہ تو اچھا کیا، تنہائی کی عادت رکھی
تب اِسے چھوڑ دیا ہوتا، تو اب کیا کرتے



روشنی، رنگ، مہک، طائر ِ خوش لحن، صبا
تُو جو آتا نہ چمن میں تو یہ سب کیا کرتے



دل کا غم دل میں لیے لوٹ گئے ہم چپ چاپ
کوئی سنتا ہی نہ تھا شور و شغب کیا کرتے
کچھ کیا ہوتا تو پھر زعم بھی اچھا لگتا
ہم زیاں کار تھے، اعلان ِ نسب کیا کرتے



دیکھ کر تجھ کو سرہانے ترے بیمارِ جنوں
جاں بلب تھے، سو ہوئے آہ بلب، کیا کرتے



تُو نے دیوانوں سے منہ پھیر لیا، ٹھیک کیا
اِن کا کچھ ٹھیک نہیں تھا کہ یہ کب کیا کرتے



یہی ہو نا تھا جو عرفانؔ ترے ساتھ ہُوا
منکرِ میرؔ بھلا تیرا ادب کیا کرتے



2.
یہ کیسے ملبے کے نیچے دبا دیا گیا ہوں
مجھے بدن سے نکالو، میں تنگ آگیا ہوں 



کسے دماغ ہے بے فیض صحبتوں کا میاں
خبر اُڑا دو کہ میں شہر سے چلا گیا ہوں



مآلِ عشق ِ انا گیر ہے یہ مختصراً
میں وہ درندہ ہوں جو خود کو ہی چبا گیا ہوں



کوئی گھڑی ہے کہ ہوتا ہوں آستین میں دفن
میں دل سے بہتا ہُوا آنکھ تک تو آگیا ہوں



مرا تھا مرکزی کردار اِس کہانی میں
بڑے سلیقے سے بے ماجرا کیا گیا ہوں



وہ مجھ کو دیکھ رہا ہے عجب تحیّر سے
نجانے جھونک میں کیا کچھ اُسے بتا گیا ہوں



مجھے بھلا نہ سکے گی یہ رہگزار ِ جنوں
قدم جما نہ سکا، رنگ تو جما گیا ہوں



سب اہتمام سے پہنچے ہیں اُس کی بزم میں آج
میں اپنے حال میں سرمست و مبتلا گیا ہوں



مرے کہے سے مرے گرد و پیش کچھ بھی نہیں
سو جو دکھایا گیا ہے وہ دیکھتا گیا ہوں
اُسے بتایا نہیں ہجر میں جو حال ہُوا
جو بات سب سے ضروری تھی وہ چھپا گیا ہوں



غزل میں کھینچ کے رکھ دی ہے اپنی جاں عرفانؔ 
ہر ایک شعر میں دل کا لہو بہا گیا ہوں



3.


عجب ہے رنگِ چمن، جا بجا اُداسی ہے
مہک اداسی ہے، باد ِ صبا اُداسی ہے



نہیں نہیں، یہ بھلا کس نے کہہ دیا تم سے
میں ٹھیک ٹھاک ہوں، ہاں بس ذرا اُداسی ہے



میں مبتلا کبھی ہوتا نہیں اُداسی میں
میں وہ ہوں جس میں کہ خود مبتلا اُداسی ہے



طبیب نے کوئی تفصیل تو بتائی نہیں
بہت جو پوچھا تو اتنا کہا، اُداسی ہے



گداز ِ قلب خوشی سے بھلا کسی کو ملا
عظیم وصف ہی انسان کا اُداسی ہے



شدید در دکی رو ہے رواں رگِ جاں میں
بلا کا رنج ہے، بے انتہا اُداسی ہے



فراق میں بھی اُداسی بڑے کمال کی تھی
پسِ وصال تو اُس سے سِوا اُداسی ہے



تمہیں ملے جو خزانے، تمہیں مبارک ہوں
مری کمائی تو یہ بے بہا اُداسی ہے



چھپا رہی ہو، مگر چھپ نہیں رہی مری جاں
جھلک رہی ہے جو زیر ِ قبا اُداسی ہے
مجھے مسائل ِ کون و مکاں سے کیا مطلب
مرا تو سب سے بڑا مسئلہ اُداسی ہے



فلک ہے سر پہ اُداسی کی طرح پھیلا ہُوا
زمیں نہیں ہے مرے زیر ِ پا، اُداسی ہے



سخن کے بھیس میں آئی ہے آج محرمِ درد
غزل کی پہنے ہوئے ہے ردا، اُداسی ہے



عجیب طرح کی حالت ہے میری بے احوال
عجیب طرح کی بے ماجرا اُداسی ہے



وہ کیفِ ہجر میں اب غالباً شریک نہیں
کئی دنوں سے بہت بے مز ا اُداسی ہے



وہ کہہ رہے تھے کہ شاعر غضب کا ہے عرفانؔ 
ہر ایک شعر میں کیا غم ہے، کیا اداسی ہے



4.
راکھ کے ڈھیر پہ کیا شعلہ بیانی کرتے
ایک قصے کی بھلا کتنی کہانی کرتے



حسن اتنا تھا کہ ممکن ہی نہ تھی خود نگری
ہم کہاں تک ترے غم کی نگرانی کرتے



شعلہِٗ جاں کو بجھاتے یونہی قطرہ قطرہ
خود کو ہم آگ بناتے، تجھے پانی کرتے



پھول سا تجھ کو مہکتا ہُوا رکھتے شب بھر
اپنے سانسوں سے تجھے رات کی رانی کرتے
ندّیاں دیکھیں تو بس شرم سے پانی ہوجائیں
چشمِ خوں بستہ سے پیدا وہ روانی کرتے



سب سے کہتے کہ یہ قصہ ہے پرانا صاحب
آہ کی آنچ سے تصویر پرانی کرتے



در و دیوار بدلنے میں کہاں کی مشکل
گھر جو ہوتا تو بھلا نقل مکانی کرتے



کوئی آجاتا کبھی یونہی اگر دل کے قریب
ہم ترا ذکر پئے یاد دہانی کرتے



سچ تو یہ ہے کہ ترے ہجر کا اب رنج نہیں
کیادکھاوے کے لیے اشک فشانی کرتے
دل کو ہر لحظہ ہی دی عقل پہ ہم نے ترجیح
یارِ جانی کو کہاں دشمنِ جانی کرتے



شب اِسی طرح بسر ہوتی ہے میری عرفانؔ 
حرفِ خوش رنگ کو اندوہِ معانی کرتے



5.


اپنی خبر، نہ اُس کا پتہ ہے، یہ عشق ہے
جو تھا نہیں ہے، اور نہ تھا ہے، یہ عشق ہے



پہلے جو تھا، وہ صرف تمہاری تلاش تھی
لیکن جو تم سے مل کے ہُوا ہے، یہ عشق ہے



تشکیک ہے، نہ جنگ ہے مابینِ عقل و دل
بس یہ یقین ہے کہ خدا ہے، یہ عشق ہے



بے حد خوشی ہے، اور ہے بے انتہا سکون
اب درد ہے، نہ غم، نہ گلہ ہے، یہ عشق ہے
کیا رمز جاننی ہے تجھے اصل ِ عشق کی
جو تجھ میں اِس بدن کے سِوا ہے، یہ عشق ہے



زیرِ قبا جو حسن ہے، و ہ حسن ہے خدا
بندِ قبا جو کھول رہا ہے، یہ عشق ہے



شہرت سے تیری خوش جو بہت ہے، یہ ہے خرد
اور یہ جو تجھ میں تجھ سے خفا ہے، یہ عشق ہے



ادراک کی کمی ہے سمجھنا اِسے مرض
اِس کی دوا، نہ اِس کی دعا ہے، یہ عشق ہے



شفاف و صاف، اور لطافت میں بے مثال
سارا وجود آئینہ سا ہے، یہ عشق ہے
یعنی کہ کچھ بھی اُس کے سِوا سوجھتا نہیں
ہاں تو جناب، مسئلہ کیا ہے، یہ عشق ہے



جو عقل سے بدن کو ملی تھی، وہ تھی ہَوس
جو روح کو جنوں سے ملا ہے، یہ عشق ہے



اِس میں نہیں ہے دخل کوئی خوف و حرص کا
اِس کی جزا، نہ اِس کی سزا ہے، یہ عشق ہے



سجدے میں ہے جو محوِ دعا، وہ ہے بے دلی
یہ جو دھمال ڈال رہا ہے، یہ عشق ہے



ہوتا اگر کچھ اور، تو ہوتا انا پرست
اِس کی رضا شکست ِ انا ہے، یہ عشق ہے



عرفانؔ ماننے میں تاٗمل تجھے ہی تھا
میں نے تو یہ ہمیشہ کہا ہے، یہ عشق ہے