عرفان ستارکے شعری مجموعہ ساعت امکاں سے ۔
مجلسِ غم نہ کوئی بزم ِ طرب، کیا کرتے
گھر ہی جا سکتے تھے آوارہِٗ شب، کیا کرتے
یہ تو اچھا کیا، تنہائی کی عادت رکھی
تب اِسے چھوڑ دیا ہوتا، تو اب کیا کرتے
روشنی، رنگ، مہک، طائر ِ خوش لحن، صبا
تُو جو آتا نہ چمن میں تو یہ سب کیا کرتے
دل کا غم دل میں لیے لوٹ گئے ہم چپ چاپ
کوئی سنتا ہی نہ تھا شور و شغب کیا کرتے
کچھ کیا ہوتا تو پھر زعم بھی اچھا لگتا
ہم زیاں کار تھے، اعلان ِ نسب کیا کرتے
دیکھ کر تجھ کو سرہانے ترے بیمارِ جنوں
جاں بلب تھے، سو ہوئے آہ بلب، کیا کرتے
تُو نے دیوانوں سے منہ پھیر لیا، ٹھیک کیا
اِن کا کچھ ٹھیک نہیں تھا کہ یہ کب کیا کرتے
یہی ہو نا تھا جو عرفانؔ ترے ساتھ ہُوا
منکرِ میرؔ بھلا تیرا ادب کیا کرتے
2.
یہ کیسے ملبے کے نیچے دبا دیا گیا ہوں
مجھے بدن سے نکالو، میں تنگ آگیا ہوں
کسے دماغ ہے بے فیض صحبتوں کا میاں
خبر اُڑا دو کہ میں شہر سے چلا گیا ہوں
مآلِ عشق ِ انا گیر ہے یہ مختصراً
میں وہ درندہ ہوں جو خود کو ہی چبا گیا ہوں
کوئی گھڑی ہے کہ ہوتا ہوں آستین میں دفن
میں دل سے بہتا ہُوا آنکھ تک تو آگیا ہوں
مرا تھا مرکزی کردار اِس کہانی میں
بڑے سلیقے سے بے ماجرا کیا گیا ہوں
وہ مجھ کو دیکھ رہا ہے عجب تحیّر سے
نجانے جھونک میں کیا کچھ اُسے بتا گیا ہوں
مجھے بھلا نہ سکے گی یہ رہگزار ِ جنوں
قدم جما نہ سکا، رنگ تو جما گیا ہوں
سب اہتمام سے پہنچے ہیں اُس کی بزم میں آج
میں اپنے حال میں سرمست و مبتلا گیا ہوں
مرے کہے سے مرے گرد و پیش کچھ بھی نہیں
سو جو دکھایا گیا ہے وہ دیکھتا گیا ہوں
اُسے بتایا نہیں ہجر میں جو حال ہُوا
جو بات سب سے ضروری تھی وہ چھپا گیا ہوں
غزل میں کھینچ کے رکھ دی ہے اپنی جاں عرفانؔ
ہر ایک شعر میں دل کا لہو بہا گیا ہوں
3.
عجب ہے رنگِ چمن، جا بجا اُداسی ہے
مہک اداسی ہے، باد ِ صبا اُداسی ہے
نہیں نہیں، یہ بھلا کس نے کہہ دیا تم سے
میں ٹھیک ٹھاک ہوں، ہاں بس ذرا اُداسی ہے
میں مبتلا کبھی ہوتا نہیں اُداسی میں
میں وہ ہوں جس میں کہ خود مبتلا اُداسی ہے
طبیب نے کوئی تفصیل تو بتائی نہیں
بہت جو پوچھا تو اتنا کہا، اُداسی ہے
گداز ِ قلب خوشی سے بھلا کسی کو ملا
عظیم وصف ہی انسان کا اُداسی ہے
شدید در دکی رو ہے رواں رگِ جاں میں
بلا کا رنج ہے، بے انتہا اُداسی ہے
فراق میں بھی اُداسی بڑے کمال کی تھی
پسِ وصال تو اُس سے سِوا اُداسی ہے
تمہیں ملے جو خزانے، تمہیں مبارک ہوں
مری کمائی تو یہ بے بہا اُداسی ہے
چھپا رہی ہو، مگر چھپ نہیں رہی مری جاں
جھلک رہی ہے جو زیر ِ قبا اُداسی ہے
مجھے مسائل ِ کون و مکاں سے کیا مطلب
مرا تو سب سے بڑا مسئلہ اُداسی ہے
فلک ہے سر پہ اُداسی کی طرح پھیلا ہُوا
زمیں نہیں ہے مرے زیر ِ پا، اُداسی ہے
سخن کے بھیس میں آئی ہے آج محرمِ درد
غزل کی پہنے ہوئے ہے ردا، اُداسی ہے
عجیب طرح کی حالت ہے میری بے احوال
عجیب طرح کی بے ماجرا اُداسی ہے
وہ کیفِ ہجر میں اب غالباً شریک نہیں
کئی دنوں سے بہت بے مز ا اُداسی ہے
وہ کہہ رہے تھے کہ شاعر غضب کا ہے عرفانؔ
ہر ایک شعر میں کیا غم ہے، کیا اداسی ہے
4.
راکھ کے ڈھیر پہ کیا شعلہ بیانی کرتے
ایک قصے کی بھلا کتنی کہانی کرتے
حسن اتنا تھا کہ ممکن ہی نہ تھی خود نگری
ہم کہاں تک ترے غم کی نگرانی کرتے
شعلہِٗ جاں کو بجھاتے یونہی قطرہ قطرہ
خود کو ہم آگ بناتے، تجھے پانی کرتے
پھول سا تجھ کو مہکتا ہُوا رکھتے شب بھر
اپنے سانسوں سے تجھے رات کی رانی کرتے
ندّیاں دیکھیں تو بس شرم سے پانی ہوجائیں
چشمِ خوں بستہ سے پیدا وہ روانی کرتے
سب سے کہتے کہ یہ قصہ ہے پرانا صاحب
آہ کی آنچ سے تصویر پرانی کرتے
در و دیوار بدلنے میں کہاں کی مشکل
گھر جو ہوتا تو بھلا نقل مکانی کرتے
کوئی آجاتا کبھی یونہی اگر دل کے قریب
ہم ترا ذکر پئے یاد دہانی کرتے
سچ تو یہ ہے کہ ترے ہجر کا اب رنج نہیں
کیادکھاوے کے لیے اشک فشانی کرتے
دل کو ہر لحظہ ہی دی عقل پہ ہم نے ترجیح
یارِ جانی کو کہاں دشمنِ جانی کرتے
شب اِسی طرح بسر ہوتی ہے میری عرفانؔ
حرفِ خوش رنگ کو اندوہِ معانی کرتے
5.
اپنی خبر، نہ اُس کا پتہ ہے، یہ عشق ہے
جو تھا نہیں ہے، اور نہ تھا ہے، یہ عشق ہے
پہلے جو تھا، وہ صرف تمہاری تلاش تھی
لیکن جو تم سے مل کے ہُوا ہے، یہ عشق ہے
تشکیک ہے، نہ جنگ ہے مابینِ عقل و دل
بس یہ یقین ہے کہ خدا ہے، یہ عشق ہے
بے حد خوشی ہے، اور ہے بے انتہا سکون
اب درد ہے، نہ غم، نہ گلہ ہے، یہ عشق ہے
کیا رمز جاننی ہے تجھے اصل ِ عشق کی
جو تجھ میں اِس بدن کے سِوا ہے، یہ عشق ہے
زیرِ قبا جو حسن ہے، و ہ حسن ہے خدا
بندِ قبا جو کھول رہا ہے، یہ عشق ہے
شہرت سے تیری خوش جو بہت ہے، یہ ہے خرد
اور یہ جو تجھ میں تجھ سے خفا ہے، یہ عشق ہے
ادراک کی کمی ہے سمجھنا اِسے مرض
اِس کی دوا، نہ اِس کی دعا ہے، یہ عشق ہے
شفاف و صاف، اور لطافت میں بے مثال
سارا وجود آئینہ سا ہے، یہ عشق ہے
یعنی کہ کچھ بھی اُس کے سِوا سوجھتا نہیں
ہاں تو جناب، مسئلہ کیا ہے، یہ عشق ہے
جو عقل سے بدن کو ملی تھی، وہ تھی ہَوس
جو روح کو جنوں سے ملا ہے، یہ عشق ہے
اِس میں نہیں ہے دخل کوئی خوف و حرص کا
اِس کی جزا، نہ اِس کی سزا ہے، یہ عشق ہے
سجدے میں ہے جو محوِ دعا، وہ ہے بے دلی
یہ جو دھمال ڈال رہا ہے، یہ عشق ہے
ہوتا اگر کچھ اور، تو ہوتا انا پرست
اِس کی رضا شکست ِ انا ہے، یہ عشق ہے
عرفانؔ ماننے میں تاٗمل تجھے ہی تھا
میں نے تو یہ ہمیشہ کہا ہے، یہ عشق ہے