Thursday, February 23, 2017






اردو گھر پر اس ہفتے کی ادبی شخصیت ۔اردو شعرو ادب کے اہم شاعر منیر نیازی۔
منیر نیازی ۹اپریل ۱۹۲۳ کو ضلع ہوشیار پور میں پیدا ہوئے پورا نام محمد منیر نیازی ابتدائی تعلیم خانپور اور سائینوال میں مکمل کی ۔اردو کے

علاوہ پنجابی میں بھی شعر کئے منیر نیازی اردو شاعری کا ایک ایسا نام جس نے اردو میں شہر اور گاؤں کو  اس طرح دیکھنے اور دکھانے کی کوششکی جس طرح ایک مسافر حیرت زدہ ہوکر چیزوں کو دیکھتا ہے اور ہر بار ایک تجسس اور بے قراری اس کے حصہ میں آتی ہے ۔منیر نیازی معلوم کی کشش سے زیادہ نامعلوم کے خوف میں زیادہ نامعلوم کے خوف میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں ان کی شاعری وسوسوں اور اندیشوں سے عبارت ہے۔ انہیں ہر وقت اس بات کا دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں کچھ ہوں نہ ہوجائے کچھ اس طرح نہ ہوجائے۔منیر نیازی رسک لینے سے ڈرتے ہیں اور یہی ڈر انہیں ایک الگ رنگ سے آشنا کرواتا ہے جس رنگ کی ضرورت اردو شاعری کو تھی بھی۔منیر نیازی نے اردو شاعری کی اس خالی جگہ کو پر کیا ہے انہوں نے ڈر اور خوف کے بیچ کی شاعری کی ہے منیرنیازی ہر وہ کام کرنے کا حوصلہ جٹانے کی کوشش کرتے ہیں جس کے بارے میں معلوم ہے کہ ناممکن ہے۔وہ مبہم نتائج سے ڈرتے ہیں ان کی شاعری بہت حد تک تقسیم کے درد کا اظہار بھی ہے۔انتظار حسین لکھتے ہیں:
’’ہجرت کا تجربہ لکھنے والوں کی ایک نسل کو اردو ادب کی باقی نسلوں سے الگ کرتا ہے
اس نسل کے مختلف لکھنے والوں کے یہاں یہ تجربہ الگ الگ دکھائی دیتا ہے ۔
منیر نیازی کے یہاں اس کا ایسا روپ ابھرا ہے جو ایک نئی دیو مالا کا نقشہ پیش 
کرتا ہے۔باقی نئی شاعری کا کیا ہے وہ تو کسی تجربہ کے حوالے بغیر خالی ٹی ہاؤس 
میں بیٹھ کر بھی کی جاسکتی ہے۔‘‘
(کلیات منیر نیازی۔مضمون ہجرت کا شاعر )

بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا
عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی 
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا

یہ نماز عصر کا وقت ہے یہ گھڑی ہے دن کے زوال کی
وہ قیامتیں جو گزر گہیں تھیں امانتیں کئی سال کی

اپنے گھروں سے دور بنوں میں پھرتے ہوئے آوارہ لوگو
کبھی کبھی جب وقت ملے تو اپنے گھر بھی جاتے رہنا

اپنی ہی تیغ ادا سے آپ گھائل ہوگیا
چاند نے پانی میں دیکھا اور پاگل ہوگیا 

بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
اک آگ سی جذبوں کی مہکائے ہوئے رہنا

ایک وارث ہمیشہ ہوتا ہے 
تخت خالی رہا نہیں کرتے

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو 
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا 

جی خوش ہو ا ہے گرتے مکانوں کو دیکھ کر 
یہ شہر خوف خود سے جگر چاک تو ہوا
 
شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا
پھر مجھے اس شہر میں نا معتبر اس نے کیا 

تم میرے لیے اتنے پریشان سے کیوں ہو 
میں ڈوب بھی جاتا تو کہیں اور ابھرتا 

غیروں سے مل کے ہی سہی بے باک تو ہوا
بارے وہ شوخ پہلے سے چالاک تو ہوا

کچھ وقت چاہتے تھے کہ سوچیں ترے لیے 
تو نے وہ وقت ہم کو زمانے نہیں دیا

میں اس کو دیکھ کے چپ تھا اسی کی شادی میں 
مزا تو سارا اسی رسم کی نباہ میں تھا 
 
 

Friday, February 3, 2017




گلزار سے زمرد مغل کی بات چیت



گلزار نے اعلیٰ ادبی سطح پر اپنی ایک الگ شناخت بنائی ہے ۔ اردو شاعری میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جو عوامی سطح پر بہت مقبول و معروف ہوئے وہ ادبی سطح پر اس طرح جانے پہچانے نہیں گئے، اور جنہوں نے اپنی شناخت ادبی حوالے سے بنائی وہ عوام سے کسی طرح کٹ گئے ، لیکن گلزار فلمی دنیا کا عوامی سطح اور خاص ادبی سطح کی شاعری کا وہ مشہور و معروف نام ہے جس نے ہر ایک کو اپنی شاعری سے اپنے مخصوص لہجے سے کسی نہ کسی طور متاثر کیا ہے ۔ آپ فلم، شاعری اور کہانی کی دنیا کے نہایت ہی اہم نام ہیں۔ گلزار سے زمرد مغل کی بات چیت ملاحظہ فرمائیں ۔
زمردمغل: اعلیٰ ادبی شاعری اور عوامی سطح کی شاعری آپ نے دونوں طرح کے پڑھنے والوں کو متاثر کیا ہے ۔ اعلیٰ ادبی شاعری اور عوامی سطح کی شاعری کرتے ہوئے آپ کو کن تجربات سے گزرنا پڑا ؟ 
گلزار: میرا خیال ہے عوام میں فرق ہے یا ان سطحوں میں فرق ہوگا شاعری میں تو نہیں ۔ جاوید اختر اگر پاپولر ہیں تو ان کا ادبی مقام بھی ہے اس سے آپ انکار نہیں کرسکتے ۔ مجروح صاحب فلم کے لیے بھی لکھتے رہے اور ان کی کتاب بھی بہت پسند کی گئی یا وہ شاعر جو رسالوں میں لکھتے ہیں یا کتابیں ہیں جن کی اب ان کتابوں سے بھی چیزیں فلموں میں لی گئی ہیں ۔ ان کا رتبہ ان کا درجہ تو کم نہیں ہوگیا ۔ جیسے میں کہوں کہ ساحرصاحب کی نظمیں اور غزلیں فلموں میں بھی آ گئی پھر اسے عوامی شاعری کہیں گے یا آپ اسے ادبی شاعری کہیں گے ۔ وہ تو دونوں جگہ وہی ہے تو فرق عوام میں ہوا جو فلم دیکھنے والے ہیں وہ بھی سن رہے ہیں اور جو پڑھنے والے ہیں وہ بھی پڑھ رہے ہیں۔ فلم میں بات کرتے ہوئے شاعر اپنا کمینٹ نہیں دے سکتا وہ اس Statement نہیں ہے اس کا بیان نہیں ہے ایک Commissioned کام ہے ایک خاص کہانی ہے ایک Situation ہے اس Situation میں ایک کردار اس کردار کی ایک زبان ہے اس زبان میں لکھنا ہے۔ فلموں میں لکھی گئی شاعری اس کا اپنا بیان نہیں اپنا بیان اس کی نجی شاعری میں ہے اپنی کتابوں میں ہے۔ 
زمردمغل: گلزار صاحب کچھ لوگوں نے جیسے شہریار ہیں جنہوں نے امراؤ جان ادا اور گمن جیسی فلموں کے لیے لکھا یا ایک نام آپ کا ہے آپ کی چیزیں جب ہم سنتے ہیں چاہے وہ جگت سنگھ کی آواز میں ہوں یا آپ کی خود کی آواز میں پھر ان کو پڑھتے بھی ہیں ویسے ہی ان چیزوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ میں یہ جاننا چاہ رہاتھا کہ گلزار یا شہریار ایک توازن رکھنے میں کامیاب رہے باقی لکھنے والوں کے یہاں گلزار صاحب ہمیں چیز دیکھنے کو نہیں ملتی کہ اگر ان کی کوئی چیز گائی گئی ہے تو وہ بہت کمزور ہے ادبی سطح پر اس کا مقام و مرتبہ نہیں ہے۔ لیکن آپ کے ساتھ ایسا نہیں ہے ۔ 
گلزار:سوال یہ ہے کہ اگر وہ کمزور ہے تو وہ شاعری ہی کمزور ہے پھر جیسے میں ایک مثال دوں کیوں کہ یہ ادب اور فلم کے میڈیم کی بات شروع ہو گئی ہے اس لیے کہ : 
میرا جوتا ہے جاپانی 
یہ پتلون انگلستانی 
سر پہ لال ٹوپی روسی 
پھر بھی دل ہے ہندوستانی 
شیلندر
یہ زبان عام ہے کیوں کہ اس میڈیم کے لیے ہے شاید نظم یا کسی اور کتاب میں لکھنا ہوتا تو کوئی دوسری طرح کی زبان استعمال کرتے لیکن یہ اس جگہ کی زبان ہے اس میں بھی وہ عام آدمی کے بارے میں کہتے ہیں کہ 
ہوں گے راج راج کنور 
ہم بگڑے دل شہزادے 
ہم سنگھاسن پہ جا بیٹھیں 
جب جب کریں ارادے 
یہ عام آدمی کی ووٹنگ کی طاقت کا ذکر ہے تو وہ شاعری چھوٹی نہیں ہوتی۔ عام شاعری نہیں ہوگی وہ اس نے اس Situationپر رہتے ہوئے بھی ایک بہت بڑی بات کہی میڈیم الگ ہے بات کرنے کو تو جو جس میڈیم میں جائے اس میڈیم میں بات کرے گا تو بات تو شاعری کی ہے تو یہ شاعری چھوٹی تو نہیں ہو جاتی۔ سوال صرف یہ ہے کہ آپ کن خوبصورتی سے اپنی Commissioned کام نبھاتے ہیں کہ اس Situation پر بھی اور ایک سطح اور کھول کے رکھ دیتا ہے اگر کرید کر دیکھیں گے تو وہ بھی مل جائے گی اور وہ اپنی بات عام لوگوں کے لیے بھی کہہ گئے اور اس Situation پر بھی کہہ گئے اور یہ گانوں میں ممکن نہیں ہوسکتا۔
زمردمغل: اردو زبان کی بقا کے لیے ہم لوگ جو لکھ رہے ہیں، شاعری کر رہے خاص طور سے ہندوستان کے حوالے سے یہ کتنی کار آمد ہے کیا اس شاعری کی وجہ سے زبان کو فائدہ ہورہاہے لوگ اسے پسند کر رہے ہیں۔ اور لوگ اسے سیکھنا چاہتے ہیں ۔ 
گلزار: کچھ سیکھنا تو میں بھی چاہتاہوں اور جاننا بھی چاہتا ہوں اردو زبان کیاہے ؟ کون سی ہے جس زبان میں ہم بات چیت کررہے ہیں کیا یہ اردو ہے؟ اگر یہ ہندوستانی ہے تو پھر یہ اردو ہے۔ سب لوگ ہندوستانی بولتے ہیں عوام کی زبان ہے فلموں میں بھی ہے پھر اردو کو کیا شکایت ہے اردو ، اردو ہے ۔ ۹۰ فیصد زبان جو بھی بولی جارہی ہے جو فلموں میں ہے وہ اردو ہے اسی کو تو آپ ہندوستانی کہتے ہیں اگر ہندوستانی اردو ہے تو اردو ہندوستانی ہے۔ 
زمردمغل: گلزار صاحب رسم الخط کا ایک مسئلہ ہے نا؟
گلزار: زبان اور رسم الخط دو الگ چیزیں ہیں آپ کو زبان کا مسئلہ ہے یا رسم الخط سکا مسئلہ ہے؟ 
زمردمغل: رسم الخط بچے گا تبھی زبان بچے گیگلزار : نہیں ! زبان بچے گی تو اسکرپٹ بچے گا زبان اگر زندہ ہے تو اسکرپٹ آپ سیکھ لیں گے۔ مجھے بنگلہ زبا ن خوبصورت لگتی تھی میں بولنا چاہتا تھا تو میں نے سیکھ لی۔ 
زمرد مغل: گلزر صاحب فلموں میں جو بالکل اردو سے ناواقف ہیں وہ بھی بہت اچھے ڈائیلاگ بولتے ہیں ۔ وہ یا تو ہندی میں یا رومن میں لکھا ہوا ہوتا ہے ۔ اسکرپٹ کا مسئلہ تو ہے ہی نا؟ 
گلزار: مسئلہ تو پھر اسکرپٹ کا ہوا نہ زبان کا نہیں پھر اردو زبان کا مسئلہ نہیں ہے اردو کا مسئلہ اسکرپٹ کا ہے ۔ اردو بولی بھی جارہی ہے سنی بھی جا رہی ہے پڑھی بھی جارہی ہے صرف لکھی دکھائی نہیں دے رہی ہے کیوں کہ اردو لکھا نہیں جا رہاہے اردو اسکرپٹ کا مسئلہ جسے حل کرنا چاہیے ایمانداری کے ساتھ کہوں تو نوحہ گری کی عادت تھوڑی اردو والوں کو روتے رہیں گے کہ بڑا ظلم ہورہاہے ہماری زبان کے ساتھ ظلم کیا ہورہاہے آپ کی زبان ہے آ پ اسے اپنا نہیں رہے ہیں اردو جو انیسویں صدی میں بولی جا رہی تھی آپ کیا سمجھتے ہیں کہ وہی اردو ہے کوئی بھی زندہ زبان اپنے دور کے ساتھ ساتھ بدلے گی۔ ہندی کیا وہی ہے سجو تقسیم سے پہلے بولی جا رہی تھی ۔ انگریزی کیا وہی ہے جو پنڈت نہرو اور ملک راج آنند بول رہے تھے آج کی انگریزی تو وہ نہیں ہے ۔ آپ کو اسکرپٹ کا پرابلم حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ زبان تو آپ بول رہے ہیں اور کہ میں بول رہاہو ں اگر یہی اردو ہے تو پھر پریشانی کس چیز کی ہے۔ 
زمردمغل: یہ مسئلہ تو ہندوستان کی باقی زبانوں کو بھی درپیش ہے مگر ہم لوگ کچھ زیادہ شور کرنے لگتے ہیں ۔
گلزار: اردو کے پاس کوئی وطن نہیں تھا کوئی صوبہ نہیں تھا کوئی علاقہ نہیں تھا۔ آج ایک پورا ملک ہے اردو کے پاس جسے پاکستان کہتے ہیں اس طرح اردو ترقی پر ہوئی یا تنزل کا شکار ہے تو پھر آپ کس بات کی شکایت کررہے ہیں ۔ اردو ایک زبان ہے جس نے صرف زبان کی وجہ سے اپنی بستیاں بسا لی ہیں امریکہ میں بھی ناروے میں اتنی بڑی بستی اردو کی ہے تو پھر تکلیف کس بات کی ہے ۔ آپ اردو کو صرف اپنی جگہ میں ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اردو پھیل رہی ہے اس کا دائرہ لکھنؤ اور دلی سے باہر ہی نہیں نکلتے۔ پاکستان میں تو لکھا بھی اردو اسکرپٹ میں جارہاہے آپ کے ہاں اگر یہ پرابلم میں ہے تو آپ کو کہ خوشی نہیں ہوتی کہ دوسری جگہ کتنی پھیل رہی ہے اردو اسکرپٹ کا مسئلہ جو ہمارے یہاں ہے تو پنجابی تو یہاں بھی بولی جاتی ہے اور پاکستان میں اگر پنجابی اسکرپٹ ہوجائیں تو کیا تکلیف ہے ۔ شبانہ اعظمی ، نصیرالدین شاہ یہ لوگ دیوناگری میں لکھتے ہیں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ لوگ اردو زبان نہیں جانتے ۔ اردو رسم الخط کا مسئلہ حل کیجئے میں نے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کو مشورہ دیا تھاکہ اردو Calligraphy اس قدر خوبصورت Calligraphy بہت کم زبانوں میں ہے جن کے پاس اس طرح کی Calligraphy ہے جس میں بنگلہ ایک ہے ۔ آپ ان کے ڈیزائن بنائیے نہ آپ اردو ڈیزائن کروائیے اس کی فوٹو نکالیے۔ آدمی پوچھے تو صحیح کون سی زبان ہے ۔ لوگوں کو اردو اسکرپٹ کی طرف توجہ تو دلوائیے۔ میں نے قاعدہ بنا کردیا تھا منظوم اردو زبان کا میں نے کہا میں اس کو ریکارڈ کر دیتا رہوں تاکہ بچوں کا تلفظ صحیح ہو جائے۔ اردو کے قاعدے تو اچھے خوبصورت بنائیے۔ 
بہت بہت شکریہ گلزار صاحب۔ 

Thursday, February 2, 2017

      راجندر منچندہ بانی
آسماں کا سرد سناٹا پگھلتا جائے گا
آنکھ کھلتی جائے گی منظر بدلتا جائے گا
پھیلتی جائے گی چاروں سمت اک خوش رونقی
ایک موسم میرے اندر سے نکلتا جائے گا
میری راہوں میں حسیں کرنیں بکھرتی جائیں گی
آخری تارا پس کہسار ڈھلتا جائے گا
بھولتا جاؤں گا گزری ساعتوں کے حادثے
قہر آئندہ بھی میرے سر سے ٹلتا جائے گا
راہ اب کوئی ہو منزل کی طرف لے جائے گی
پاؤں اب کیسا پڑے خود ہی سنبھلتا جائے گا
اک سماں کھلتا ہوا سا اک فضا بے داغ سی
اب یہی منظر مرے ہم راہ چلتا جائے گا
چھو سکے گی اب نہ میرے ہاتھ طوفانی ہوا
جس دیے کو اب جلا دوں گا وہ جلتا جائے گا
2
اک گل تر بھی شرر سے نکلا
بسکہ ہر کام ہنر سے نکلا
میں ترے بعد پھر اے گم شدگی
خیمۂ گرد سفر سے نکلا
غم نکلتا نہ کبھی سینے سے
اک محبت کی نظر سے نکلا
اے صف ابر رواں تیرے بعد
اک گھنا سایہ شجر سے نکلا
راستے میں کوئی دیوار بھی تھی
وہ اسی ڈر سے نہ گھر سے نکلا
ذکر پھر اپنا وہاں مدت بعد
کسی عنوان دگر سے نکلا
ہم کہ تھے نشۂ محرومی میں
یہ نیا درد کدھر سے نکلا
ایک ٹھوکر پہ سفر ختم ہوا
ایک سودا تھا کہ سر سے نکلا
ایک اک قصۂ بے معنی کا
سلسلہ تیری نظر سے نکلا
لمحے آداب تسلسل سے چھٹے
میں کہ امکان سحر سے نکلا
سر منزل ہی کھلا اے بانیؔ
کون کس راہ گزر سے نکلا
3
بجائے ہم سفری اتنا رابطہ ہے بہت
کہ میرے حق میں تری بے ضرر دعا ہے بہت
تھی پاؤں میں کوئی زنجیر بچ گئے ورنہ
رم ہوا کا تماشا یہاں رہا ہے بہت
یہ موڑ کاٹ کے منزل کا عکس دیکھو گے
اسی جگہ مگر امکان حادثہ ہے بہت
بس ایک چیخ ہی یوں تو ہمیں ادا کر دے
معاملہ ہنر حرف کا جدا ہے بہت
مری خوشی کا وہ کیا کیا خیال رکھتا ہے
کہ جیسے میری طبیعت سے آشنا ہے بہت
تمام عمر جنہیں ہم نے ٹوٹ کر چاہا
ہمارے ہاتھوں انہیں پر ستم ہوا ہے بہت
ذرا چھوا تھا کہ بس پیڑ آ گرا مجھ پر
کہاں خبر تھی کہ اندر سے کھوکھلا ہے بہت
کوئی کھڑا ہے مری طرح بھیڑ میں تنہا
نظر بچا کے مری سمت دیکھتا ہے بہت
یہ احتیاط کدہ ہے کڑے اصولوں کا
ذرا سے نقص پہ بانیؔ یہاں سزا ہے بہت
4
پیہم موج امکانی میں
اگلا پاؤں نئے پانی میں
صف شفق سے مرے بستر تک
ساتوں رنگ فراوانی میں
بدن وصال آہنگ ہوا سا
قبا عجیب پریشانی میں
کیا سالم پہچان ہے اس کی
وہ کہ نہیں اپنے ثانی میں
ٹوک کے جانے کیا کہتا وہ
اس نے سنا سب بے دھیانی میں
یاد تری جیسے کہ سر شام
دھند اتر جائے پانی میں
خود سے کبھی مل لیتا ہوں میں
سناٹے میں ویرانی میں
آخر سوچا دیکھ ہی لیجے
کیا کرتا ہے وہ من مانی میں
ایک دیا آکاش میں بانیؔ
ایک چراغ سا پیشانی میں
5
زماں مکاں تھے مرے سامنے بکھرتے ہوئے
میں ڈھیر ہو گیا طول سفر سے ڈرتے ہوئے
دکھا کے لمحۂ خالی کا عکس لاتفسیر
یہ مجھ میں کون ہے مجھ سے فرار کرتے ہوئے
بس ایک زخم تھا دل میں جگہ بناتا ہوا
ہزار غم تھے مگر بھولتے بسرتے ہوئے
وہ ٹوٹتے ہوئے رشتوں کا حسن آخر تھا
کہ چپ سی لگ گئی دونوں کو بات کرتے ہوئے
عجب نظارا تھا بستی کا اس کنارے پر
سبھی بچھڑ گئے دریا سے پار اترتے ہوئے
میں ایک حادثہ بن کر کھڑا تھا رستے میں
عجب زمانے مرے سر سے تھے گزرتے ہوئے
وہی ہوا کہ تکلف کا حسن بیچ میں تھا
بدن تھے قرب تہی لمس سے بکھرتے ہوئے

Wednesday, February 1, 2017






محمد حمید شاہد       

اِنتظار حسین کی یاد میں                                                


کہنے کو پورا سال بیت گیا ہے ، انتظار حسین کو ہم سے بچھڑے مگر لگتا ہے وہ اس سال بھی پل پل ہمارے ساتھ رہے ہیں ۔ کچھ کہتے ہوئے اپنی بیٹھی بیٹھی سی آواز میں اور اس تشویش کے ساتھ جو انتظار حسین کے سارے فکشن میں یہاں وہاں اچانک برآمد ہو کر اپنے قاری کا دل مٹھی میں کر لیا کرتی ہے ۔ عین آغاز میں ہی سلیم احمد کی طویل نظم’’ مشرق‘‘ کی وہ سطریں یادآگئی ہیں جن میں سے انتظار حسین کی مخصوص آواز اور تشویش کو ایک ساتھ جھلک دیتے دیکھا جا سکتا ہے :
’’انتظار اپنی مخصوص آواز میں
جو گلے کی خرابی کے باعث نہیں
ویسے ہی
بیٹھی بیٹھی سی لگتی ہے
یہ کہہ رہا تھا
’’اٹھو یار‘‘
تم تو بہت سو چکے 
اب اٹھو ۔۔۔چائے پی لو
خبر ہے ہماری ٹرین اب کہاں جائے گی‘‘
( ’’مشرق‘‘: سلیم احمد )
یہاں جس ٹرین کا ذکر ہو رہا ہے ، اس پر انتظار حسین سوار تھے اور سلیم احمد بھی، ایک چھوٹی سی بستی ڈِبائی ،جو بلند شہر کے ضلعے میں علی گڑھ کے قرب میں واقع تھی، پیچھے رہ گئی تھی اور ایک تشویش ساتھ ہو لی تھی ، سامنے لاہور تھا اور کہا یہ جا رہا تھا کہ یہاں ٹرین کو ٹھہرنے کی اجازت نہ ہوگی ۔خیر، ٹرین وہاں رُکی،انتظار حسین اُترے اور لاہور ہی میں ٹھہر گئے ۔ ٹھہر گئے نہ کہیے کہ وہ تو وہاں بس گئے تھے ۔ یہ شہرایسا تھا جو انہیں گرفتار کر سکتا تھا ، اور اس نے گرفتار کیا، کچھ اس طرح وہ اس میں بستے تھے اور اپنے ڈِبائی کو دل میں بسا سکتے تھے۔ ’’جنم کہانیاں‘‘ کے آخر میں انتظار حسین نے اپنے کرداروں کے حوالے سے کچھ باتیں کی ہیں ، اسی تحریر میں وہ کہتے ہیں:
’’جو لوگ اچانک اوجھل ہو گئے تھے وہ مجھے بے طرح یاد آرہے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں میں اپنی بستی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ آیا تھا۔ مگر پھر وہ لوگ بھی یاد آتے تھے جو منوں مِٹی میں دبے پڑے تھے ، میں اپنی یادوں کے عمل سے ان سب کو اپنے نئے شہر میں بلا لینا چاہتا تھا کہ وہ پھر اکٹھے ہوں اور میں ان کے واسطے سے اپنے آپ کو محسوس کر سکوں ۔‘‘
یوں ہے کہ انتظار حسین ۱۷ ، اکتوبر ۱۹۴۷ ء کواپنی نئی بستی لاہور اُترے تھے اپنے اندر بسے ہوئے قصبے اور اس کے لوگوں کے ساتھ ۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس قصبے میں لگ بھگ وہ دس گیارہ سال ہی رہے ہوں گے مگر انہیں لگتا ، وہاں وہ ایک پوری صدی رہے تھے ۔ وہ چھوٹا سا قصبہ وہ چھوٹی سی زمین ، وہ بستی اور اس کی نواح میں چھوٹے چھوٹے دیہات ، جہاں وہ یکے میں بیٹھ کر جایاکرتے تھے اور کبھی کبھی بیل گاڑی میں ، ایک پورا برا عظم تھا۔جی ،براعظم کہیں یا ایک پوری تہذیب، انسانوں، پرندوں اور درختوں کی تہذیب ۔ 
نہ جانے کیوں ٹی وی کے کسی کمپیئرکے سوال کا جواب دیتے ہوئے انتظار حسین نے یہ کیوں کہہ دیا تھا کہ جب اُکھڑی ہوئی خلقت کا سیلاب امڈا ہوا تھااور سیلاب میں بہت سا خس و خاشاک بھی بہتا چلا آیاتھا تو بس ایسے ہی وہ بھی ایک تنکے کی صورت بہتے یہاں چلے آئے تھے جب کہ کئی اور مقامات پر وہ بتاتے آئے ہیں کہ میرٹھ میں ان کی ملاقات حسن عسکری سے ہوئی تھی اور پھر تعلق ایسا بنا کہ انہی کے اپنے نام ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے ایک اعلان کو سن کر، جو فی الاصل پاکستان آنے کی دعوت تھی، انہوں نے ہجرت کا فیصلہ کیا تھا ۔خیر وہ یہاں آگئے تھے اور ادھر ادھر بہت زیادہ بھٹکنے کی بہ جائے افسانہ نگاری کی طرف آگئے اور پھر اس علاقے میں اتنی دور تک گئے کہ کوئی اور اتنی دور تکچلتا تو اس کی سانسیں کب کی اکھڑ جاتیں ۔ ہم نے کئیوں کی راہ میں سانسیں اکھڑتے یا ادبدا کر کسی اور طرف نکلتے دیکھا ہے مگر انتظار حسین کا کہانی کی جس قبیل سے تعلق تھا وہ ان کے اندر سے پھوٹتی تھی اوراس بستی کے گلی کوچوں ، امام باڑوں اور چوباروں سے بھی کہ جس بستی کی مٹی میں اُن کی آنول نال گڑھی ہوئی تھی اور اس ہجرت سے بھی کہ جو پیچھے جاکر ایک اور ہجرت سے جڑ کراپنا معنیاتی دائرہ وسیع تر کر لیتی تھی ۔ ایسی کہانی ایک بار آغاز پکڑ لے تو ختم کہاں ہوتی ہے ۔ یہ ۲۰ ستمبر ۲۰۱۴ ء کی بات ہے، حکومت فرانس کی طرف سے انتظار حسین کو ایک اعزاز سے نوازا جارہا تھا ، اسی موقع پر انہوں نے اپنی کہانی کے یہ بھید بھرا قرینہ کھولتے ہوئے کہا تھا: 
’’کہانی جب شروع ہو جائے تو اس کا کوئی انت نہیں ہوتا۔ کہانی کار کا قلم جہاں رُک جاتا ہے ،اسے ہم ناول یا افسانے کا انجام سمجھ لیتے ہیں۔ مگر کہانی تو پھر بھی جاری رہتی ہے۔ ‘‘
صاحب ،انتظار حسین کی اپنی زندگی کی کہانی ہو یا ان کے فن کی اس میں لگ بھگ ایک جیسے بھید بھنور ہیں یہ دونوں کہانیاں ایک دوسرے کا راستہ کاٹتے ہوئے چلتی ہیں اور مجھے تو یوں لگتا ہے یہ ایک دوسرے میں پیوست ہو کر ہی آگے بڑھ سکتی تھیں ، سو اسی قرینے سے آگے بڑھتی رہیں ۔ اور یہ جو کہا جاتا ہے، بجا ہی کہا جاتا ہے کہ وہ واقعات جو انتظار حسین کے فکشن میں آکر سج جاتے ہیں ، ایک تہذیب کا مظہر ہو جاتے ہیں اور متن کو معنویت سے کناروں تک بھر جاتے ہیں، ان میں اتنا دم خم نہیں ہوتا کہ کہانی کا بھرم رکھ سکیں ،یہ تو انتظار حسین کا جادوئی بیانیہ ہی ہوتاہے جو کرداروں کو، کہانی میں بسے لوگوں کے رویوں کو ، ایک ایک منظر کو اور بنتے بگڑتے ماحول کو ایک کہانی میں باندھ دیتا ہے ، کچھ یوں جیسے استخواں پر مڑھے ہمارے وجود کے سارے چیتھڑوں کو ہمارا پوست گٹھری میں باندھ لیتا ہے ۔ اور ہاں آصف فرخی نے یہ جو کہا ہے کہ انتظار حسین کا اردو افسانے میں روپ انوکھا ہے تو سچ ہی کہا ہے ۔ بہ قول اُن کے، شایدایسا اس لیے ہے کہ انتظار حسین بعض جدیدیوں کے لیے تکلیف دہ حد تک پرانے ہیں اور بعض سکہ بند پرانوں کے لیے ناقابل برداشت حد تک نئے ۔ آصف فرخی نے یہ بات انتظار حسین کی زندگی اور فن پر لکھی ہوئی اپنی کتاب میں کہی ہے اور ساتھ ہی یہ سوال اٹھایا ہے کہ اب اس نئے پرانے کا فیصلہ کون کرے؟
مجھے یہاں یہ کہنا ہے کہ آخر ، وہ ہم پر کیا افتاد آ پڑی ہے کہ نئے پرانے کا فیصلہ کرنا ہماری جان کا روگ ہوا ہے ۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ایسے ہی سوالات نے ہمارے فکشن کی راہ میں کئی رخنے کھڑے کیے رکھے ہیں اور ہم قدم قدم پر رُک کران سے نمٹنے کو کہانی میں رُجھا ہوا اپنا دھیان توڑتے رہے ہیں ۔ یہاں انتظار حسین کے ایک افسانے سے چند سطریں مقتبس کرنا چاہتا ہوں :
’’اُس نے کروٹ لی اور سوچا ، میں ماضی میں ہوں یا مستقبل میں ہوں۔ ماضی ، حال ،مستقبل، بیداری ،خواب سب کچھ گڈ مڈ تھا جیسے وہ جاگ بھی رہا تھا اور سو بھی رہا تھا جیسے وہ ماضی ،حال اور مستقبل کے منطقوں میں بکھرا پڑا تھا‘‘(کانا دجال:انتظار حسین)
ایک ٹکڑا ان کے ناول ’’بستی‘‘ سے بھی کہ انتظار حسین کا اور ان کی کہانی کا مزاج آنکنے میں سہولت ہو ۔ مرحلہ ہمارے ٹوٹنے کا ہے ، دولخت ہونے کا ہے :
’’ایک سوال کرنے والے نے سوال کیا کہ یا سیدالساجدین ،آپ نے صبح کس عالم میں کی ؟آپ نے فرمایا ،پالنے والے کی قسم ، ہم نے بنو امیہ کے ظلم میں صبح کی۔ ‘‘ابا یہ کہہ کر افسردہ ہو گئے ۔ کہنے لگے، ’’بیٹے تب سے اب تک وہی صبح چل رہی ہے ۔‘‘ 
جب ہمارا وجود ماضی حال اور مستقبل کے منظقوں میں بکھرا ہوا ہے ، جب ہم پر گزرنے والی ہر شب ایک سی اور طلوع ہونے والی صبح بھی ایک سی ہے تو ہماری کہانی، اپناوتیرہ کیسے ترک کرسکتی تھی ، تاہم ایسا ہے کہ اپنے ماضی میں دور تک جڑے ہوے وقت کی تہذیب چاہے کتنی بوسیدگی لیے ہوئے ہو ،ہر نئی صبح کچھ نہ کچھ جھاڑتی جھٹکتی رہی ہے اور کچھ نئی کرنوں سے سجتی سنورتی رہی ہے ، سو اسے انتظار حسین نے بھی اپنے تخلیقی وجود کا حصہ بنایاہے۔ 
دیکھیے افسانوں کی پہلی ہی کتاب ’’گلی کوچے‘‘ میں جہاں’’ قیوما کی دکان‘‘ اور’’ روپ نگر کی سواریاں‘‘ جیسے افسانے ہیں ،وہیں ’’ایک بن لکھی رزمیہ ‘‘ جیسا تیکنیکی سطح پر نئی راہیں سجھاتا افسانہ بھی ہے ۔ کچھ ایسا ہے کہ عین آغاز ہی سے وہ روایت میں کاٹ پھانس کو شعار کیے ہوئے تھے،اور ایسا وہ آخری سانس تک کرتے چلے گئے ۔ یہ سوال الگ کہ کہاں کہاں وہ جست لگاکر ایک روشن لکیر بنے اور کہاں ان کا تجربہ گیلی شرلی کی طرح جل کر وہیں بجھ گیا۔ خیر، جہاں جہاں ہمیں گماں گزرتا ہے کہ ان کا تجربہ کامیاب نہ رہا وہاں وہاں بھی ، وہ اپنے خالص تہذیبی بنانیے کی وجہ سے متن کو ایسا بنا لیتے ہیں کہ اُن پر بھی رشک آتا ہے۔ 
گلی کوچے(۱۹۵۲ء) کا ذکر ہوا تو بتاتا چلوں کہ فکشن نگاری کے اس سفر میں ’’چاندگہن‘‘(۱۹۵۳)، ’’کنگری‘‘(۱۹۵۵ء)،’’دن اور داستان‘‘(۱۹۶۲ء) سے’’ آخری آدمی‘‘(۱۹۶۷ء) تک پہنچنے کے سارے عرصے میں انتظار حسین نے جس تخلیقی رچاؤں سے کہانی کا تہذیبی بیانیہ تشکیل دیا ہے اورافسانے یا ناول کی ساخت کو بدل بدل کر جس طرح نئی صورتیں دکھائی ہیں ،اس نے، اس سارے عرصے میں، اُن کے فن کو مسلسل موضوع بحث بنا ئے رکھا تھا ۔’’ آخری آدمی‘‘ تک آتے آتے لگ بھگ وہ اپنی تخلیقی وفور کیبلندقوس پر تھے۔ ان کے معروف ناول’’ بستی‘‘(۱۹۸۰ء) کو بھی یہیں آس پاس دیکھا جاسکتا ہے۔ ’’شہر افسوس ‘‘(۱۹۷۲ء)،’’کچھوے ‘‘(۱۹۸۱ء)،’’خیمے سے دور‘‘(۱۹۸۶ء)کے بعد ’’نئی پرانی کہانیاں‘‘ تک کا سفر اسی قوس کی بلندی اُترنے کا سفرسہی مگر یہ وہ عرصہ ہے جب انہیں اپنی ہجرت کو بہت پیچھے جا کر جوڑنے میں اُلجھن ہونے لگی تھی اور اس کی معنویت میں رخنے پڑنے لگے تھے حتی کہ انہوں نے سامنے دیکھا تو انہیں بپھرتا سمندر نظر آیا تھا ۔ میں نے کہا تھا نا، کہ کہانی انتظار حسین کے وجود میں اور انتظار حسین کا وجود ان کی کہانیوں کے اندر پیوست ہے دونوں کو الگ الگ پڑھا تو جاسکتا ہے ڈھنگ سے سمجھا نہیں جا سکتا ہے ۔ شہر افسوس میں انتظار حسین نے کہا تھا:
’’میں بھی اپنے وقت میں مقید ہوں اور اپنی واردات کا اسیر ہوں ۔ میں کہانی کیا لکھتا ہوں اپنی بکھری مٹی سے ذرے چنتا ہوں ۔ مگر مٹی بہت بکھر گئی ہے ‘‘
ان کے وجود کی اس بکھری مٹی کو ان کے افسانے’’خواب اور تقدیر‘‘ سے مقتبس اس عبارت سے جوڑ کر دیکھیے:
’’ہاں میں یہی سوچتا ہوں کہ کوفہ کیا اور کیوں ؟ بار بار اس خیال کو دفع کرتا ہوں اور بار بار یہ خیال دامن گیر ہوتا ہے کہ مبارک قریوں کے بیچ کوفہ کیسے اور کیوں کر نمودار ہو گیا اور کتنی جلدی نمودار ہوا۔ ہجرت کو ابھی ایسا کون سا زمانہ گزر گیا تھا؟‘‘
نہیں ،شاید میں نے اس افسانے کا یہ ٹکڑا درج کرنے میں جلدی کی مجھے پہلے یہ بتانا چاہیے تھا کہ انتظار حسین کے اندر بھی ایک کربلا بسی ہوئی تھی ۔ایک مرتبہ انہوں نے کہا تھا:
’’سو اے دوستو ، میں نے عالی نسبی کا کوئی دعویٰ نہیں کیا مگر میرے اہل خاندان شجرہ لیے کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ کربلا کی خاک سے بہنے والے خون سے جو چھینٹے اُڑے ،انھیں میں سے ایک چھینٹا ہم بھی ہیں۔‘‘
سو،یوں ہے کہ انتظار حسین کر بلا میں بہتے ہوئے خون کا ایک چھینٹا تھے ۔ اور ان کا مبارک قریے کی بابت تشویش میں مبتلا ہونا اور اپنے فکشن کے ہر ہر مرحلے پراس قریے سے،کہ جس سے وہ ایک تہذیبی رشتہ استوار کر چکے تھے ،ایسے سوالات اچھال دینے کی ایک گہری معنویت ہے۔ ’’آگے سمندر ہے‘‘ سے ایک اقتباس:
’’میں اگر جانتا ہوں تو بس اتنا کہ ایک وقت کشتیاں جلانے کا ہوتا ہے اور ایک وقت کشتی بنانے کا ۔ وہ وقت بہت پیچھے رہ گیا جب ہم سے اگلوں نے ساحل پر اتر کر اپنی ساری کشتیاں جلا ڈالی تھیں ۔ اب بپھرتا سمندر ہمارے پیچھے نہیں ،ہمارے سامنے ہے اور ہم نے کوئی کشتی نہیں بنائی ہے ۔‘‘ 
لیجئے، یہاں تک آتے آتے ہمارے دلوں میں پھر سے وہی خوف اور وہی وسوسہ بیٹھ گیا ہے جواُدھر سے ایک ٹرین میں بیٹھ کر ادھر آنے والوں کے دلوں میں بیٹھا ہوا تھا، مجھے یوں لگتا ہے وہ ٹرین اتنی بڑی ہو گئی ہے کہ ہم سب اس کا حصہ ہیں اور انتظار حسین اپنی بیٹھی ہوئی مخصوص آواز میں کہے جاتے ہیں : 
’’اٹھو یار
تم تو بہت سو چکے 
اب اٹھو ۔۔۔چائے پی لو
خبر ہے ہماری ٹرین اب کہاں جائے گی۔‘‘

’پچھلے چند پرسوں میں خوشبیر سنگھ شاد کا کلام اردو کے ادبی حلقوں میں دلچسپی سے پڑھا جارہا ہے۔ایک زمانہ تھا جب مشاعروں میں 
قبول عام معیار کی سند ہوا کرتا تھالیکن اگر کسی کا کلام سامعین کو بھی متاثر کرئے اور قارئین کو متوجہ کرنے میں بھی کامیاب ہو تو اس کا استحقاق مسلم ہوجاتا ہے۔خوشبیر سنگھ کا نام ’خوشبیر‘اور ان کا تخلص ’شاد‘ ہے۔ان کاعام شعری لب و لہجہ اثبات ذات کا ہے۔ان کا سفر گمان کی فضا میں یقین کی کھوج یا طوفان کے تلاطم میں ساحل کی تلاش ہے اور آج کے حالات میں اس کی ضرورت بھی ہے۔‘‘
شاد کی ہر نئی غزل ہر نیا شعری مجموعہ ان کے شعری سفر میں اضافے کی حیثیت رکھتا ہے آپ ان کے پورے شعری منظر نامے پر نگا ہ ڈالیں گے تو محسوس کریں گے کہ وہ مسلسل ترقی کی طرف اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں ابھی تھکے نہیں ہیں ان کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے اور اس بہت کچھ کو کہنے کا سلیقہ بھی انہیں خوب آتا ہے۔ (گوپی چند نارنگ) پیش خدمت ہے خوشبیر سنگھ شاد کا کلام۔

اپنے زعم کی تشہیر کر رہی ہے ہوا
میں اتنا بکھرا نہیں جتنا لے اڑی ہے ہوا
یہ احترام مرا کیوں ہے سب پتا ہے مجھے
مجھے نہیں‘ مری خوشبو کو چاہتی ہے ہوا
میں اس کے ساتھ رہا ہوں کئی بگولوں میں
یوں ہی نہیں مری وحشت کو مانتی ہے ہوا
بتاؤ کون سا کردار ہے پسند تمہیں؟
چراغ عارضی ہوتے ہیں، دائمی ہے ہوا
اٹھا تو لائی مری گرد اپنے شانوں پر
یہ دیکھنا ہے کہاں اب اتارتی ہے ہوا؟
تجھے خبر ہی نہیں ہے تری حفاظت کو
تمام رات اندھیروں میں جاگتی ہے ہوا
جو ٹوٹتا سا تسلسل ہے میری سانسوں کا
کہیں دیار بدن میں ٹھہر گئی ہے ہوا
یہ بات شادؔ بہت مشترک ہے دونوں میں
مری ہی طرح یہاں خاک چھانتی ہے ہوا

2.
ہر نفس اک فکر سی بے تاب رکھتی ہے مجھے
نیند کے عالم میں بھی بے خواب رکھتی ہے مجھے
ایک موج مہرباں کا مجھ پہ یہ احسان ہے
خود کو گردش میں، پسِ گرداب رکھتی ہے مجھے
کل اندھیروں میں تھی باہم دیر تک یہ گفتگو
کون سی وہ لَو ہے جو شب تاب رکھتی ہے مجھے؟
بس صدف کھل جائے اور پھر دیکھ لے دنیا تجھے
خوش گمانی میں مری یہ تاب رکھتی ہے مجھے
جذب ہو جاتی ہے خود آنکھوں کے ریگستان میں
ظاہرہ تو یہ ندی سیراب رکھتی ہے مجھے
درد کو اشعار میں تبدیل کر لیتا ہوں میں
یہ ترو تازہ ہوا شاداب رکھتی ہے مجھے

3.

آس ہر نقش میں کچھ رنگ سجانے لگ جائے
خواب سوچیں بھی تو تعبیر ستانے لگ جائے
دستکو کھولتا ہوں میں ابھی دروازۂ دل
درد آیا ہے جو پہلے وہ ٹھکانے لگ جائے
اپنی مرضی سے پلٹتی تو نہیں ہیں آنکھیں
کیا کریں جب کوئی چہرہ ہی بلانے لگ جائے
کیا بُرا ہے تری صورت سی کوئی صورت ہو
دل کہیں اور اگر تیرے بہانے لگ جائے
میں ملاتا نہیں بستی میں کسی سے آنکھیں
پھر کوئی اپنی کہانی نہ سنانے لگ جائے
شادؔ آنکھیں بھی ترو تازہ اٹھیں وقت سحر
کاش یہ نیند کسی خواب کے شانے لگ جائے

4.
سمندر میں بھی تُو کب تک رہے گا؟
تجھے سورج کسی دن لے اڑے گا
میں ضائع ہو رہا ہوں اپنے ہاتھوں
کوئی نقصان میرا کیوں بھرے گا؟
ابھی کچھ دیر میں چہکیں گی شاخیں
ابھی کچھ دیر میں یہ دن ڈھلے گا
بڑی فرصت کی ہے میری کہانی
تو عجلت میں اِسے کیسے سنے گا؟
اسے کیوں بے طرح دیکھا ہے تونے؟
وہ چہرہ آئنے سے کیا کہے گا؟
چلو پانی سے بجھ جائیں گے شعلے
مگر ان سے دھواں بھی تو اٹھے گا؟
جو میں نے توڑ دی اپنی خموشی
تو اتنا شور کیسے سن سکے گا؟
ترا یہ ساتھ کتنا خوش نما ہے
مگر یہ ساتھ بھی کب تک رہے گا

4.
کوئی انکار سا مجھ میں کہیں اٹھنے لگا ہے
مرا اب ان عقیدوں سے یقیں اٹھنے لگا ہے
غبار فکر پہلے بے ضرر ہوتا تھا لیکن
یہ لے کر ساتھ اب دل کی زمیں اٹھنے لگا ہے
یہ کن بجھتے ہوئے سرکش چراغوں کا دھواں ہے ؟
جہاں ممنوع تھا اٹھنا، وہیں اٹھنے لگا ہے
وہ جن خوش فہمیوں میں مبتلا تھے آج تک ہم
وہ پردہ کچھ پلوں میں ہم نشیں اٹھنے لگا ہے
ہے دشتِ آرزو کچھ اور بھی صورت سفر کی
مرا تو ان سرابوں سے یقیں اٹھنے لگا ہے

5.
اتنی وحشت ہے کہ سودائی ہوئے جاتے ہیں
ہم وہ تنہا ہیں کہ تنہائی ہوئے جاتے ہیں
کیوں نہیں ہوتی ہیں منکر مری آنکھیں ان سے
یہ جو منظر مری بینائی ہوئے جاتے ہیں
سر پہ جلتا ہوا سورج ہے زمیں شعلوں سی
ہم تو یہ سوچ کے صحرائی ہوئے جاتے ہیں
دیکھتے رہتے ہیں بدحال طبیعت میں ہمیں
اب تو اپنے بھی تماشائی ہوئے جاتے ہیں
ہم نے دیکھا ہے کہ اس شہر طلسمات میں لوگ
ایک آواز کے شیدائی ہوئے جاتے ہیں
اب تو یہ زہر بھی پی لیتے ہیں تیری خاطر
زندگی کیا ترے صحبائی ہوئے جاتے ہیں
شادؔ جو جھوٹ نہ تسلیم کبھی ہم سے ہوئے
آج اِس دور کی سچائی ہوئے جاتے ہیں

Tuesday, January 31, 2017





سالم سلیم

غزل 
میری ارزانی سے مجھ کو وہ نکالے گا مگر
اپنے اوپر ایک دن قربان کر دے گا مجھے 
منجمد کر دے گا مجھ میں آ کے وہ سارا لہو 
دیکھتے ہی دیکھتے بے جان کر دے گا مجھے
کتنا مشکل ہو گیا ہوں ہجر میں اس کے سو وہ
میرے پاس آئے گا اور آسان کر دے گا مجھے
رفتہ رفتہ ساری تصویریں دمکتی جائیں گی
اپنے کمرے کا وہ آتشدان کر دے گا مجھے
خواب میں کیا کچھ دکھا لائے گا وہ آیئنہ رو
نیند کھلتے ہی مگر حیران کر دے گا مجھے
ایک قطرے کی طرح ہوں اسکی آنکھوں میں ابھی
اب نہ ٹپکوں گا تو وہ طوفان کر دے گا مجھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


غزل 
بدن سمٹا ہوا اور دشتِ جاں پھیلا ہوا ہے
سو تا حدِّ نظر وہم وگماں پھیلا ہوا ہے
ہمارے پاؤں سے کوئی زمیں لپٹی ہوئی ہے
ہمارے سر پہ کوئی آسماں پھیلا ہوا ہے
یہ کیسی خامشی میرے لہو میں سرسرائی
یہ کیسا شور دل کے درمیاں پھیلا ہوا ہے
تمہاری آگ میں خود کو جلایا تھا جو اک شب
ابھی تک میرے کمرے میں دھواں پھیلا ہوا ہے
حصارِذات سے کوئی مجھے بھی توچھڑائے
مکاں میں قید ہوں اور لا مکاں پھیلا ہوا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


غزل 
کچھ بھی نہیں ہے باقی بازار چل رہا ہے 
یہ کاروبارِ دنیا بے کار چل رہا ہے 
وہ جو زمیں پہ کب سے اک پاؤں پر کھڑا تھا 
سنتے ہیں آسماں کے اُس پار چل رہا ہے 
کچھ مضمحل سا میں بھی رہتا ہوں اپنے اندر
وہ بھی بہت دنوں سے بیمار چل رہا ہے 
شوریدگی ہماری ایسے تو کم نہ ہو گی 
دیکھو وہ ہو کے کتنا تیار چل رہا ہے 
تم آؤ تو کچھ اس کی مٹی اِدھر اُدھر ہو
اب تک تو دل کا رستہ ہموار چل رہا ہے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل 
نہ چھین لے کہیں تنہائی ڈر سا رہتاہے
مرے مکاں میں وہ دیوار ودر سا رہتا ہے
کبھی کبھی تو ابھرتی ہے چیخ سی کوئی
کہیں کہیں مرے اندر کھنڈر سا رہتاہے
وہ آسماں ہو کہ پرچھائیں ہو کہ تیرا خیال
کوئی تو ہے جو مرا ہم سفر سا رہتاہے
میں جوڑ جوڑ کے جس کو زمانہ کرتا ہوں 
وہ مجھ میں ٹوٹا ہوا لمحہ بھرسا رہتاہے 
ذرا سا نکلے تو یہ شہر الٹ پلٹ جائے
وہ اپنے گھر میں بہت بے ضرر سا رہتاہے
بلا رہا تھا وہ دریا کے پار سے اک دن
جبھی سے پاؤں میں میرے بھنور سا رہتا ہے
نہ جانے کیسی گرانی اٹھائے پھرتا ہوں 
نہ جانے کیا مرے کاندھے پہ سر سا رہتاہے


سالم سلیم
غزل 
میری ارزانی سے مجھ کو وہ نکالے گا مگر
اپنے اوپر ایک دن قربان کر دے گا مجھے 
منجمد کر دے گا مجھ میں آ کے وہ سارا لہو 
دیکھتے ہی دیکھتے بے جان کر دے گا مجھے
کتنا مشکل ہو گیا ہوں ہجر میں اس کے سو وہ
میرے پاس آئے گا اور آسان کر دے گا مجھے
رفتہ رفتہ ساری تصویریں دمکتی جائیں گی
اپنے کمرے کا وہ آتشدان کر دے گا مجھے
خواب میں کیا کچھ دکھا لائے گا وہ آیئنہ رو
نیند کھلتے ہی مگر حیران کر دے گا مجھے
ایک قطرے کی طرح ہوں اسکی آنکھوں میں ابھی
اب نہ ٹپکوں گا تو وہ طوفان کر دے گا مجھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


غزل 
بدن سمٹا ہوا اور دشتِ جاں پھیلا ہوا ہے
سو تا حدِّ نظر وہم وگماں پھیلا ہوا ہے
ہمارے پاؤں سے کوئی زمیں لپٹی ہوئی ہے
ہمارے سر پہ کوئی آسماں پھیلا ہوا ہے
یہ کیسی خامشی میرے لہو میں سرسرائی
یہ کیسا شور دل کے درمیاں پھیلا ہوا ہے
تمہاری آگ میں خود کو جلایا تھا جو اک شب
ابھی تک میرے کمرے میں دھواں پھیلا ہوا ہے
حصارِذات سے کوئی مجھے بھی توچھڑائے
مکاں میں قید ہوں اور لا مکاں پھیلا ہوا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


غزل 
کچھ بھی نہیں ہے باقی بازار چل رہا ہے 
یہ کاروبارِ دنیا بے کار چل رہا ہے 
وہ جو زمیں پہ کب سے اک پاؤں پر کھڑا تھا 
سنتے ہیں آسماں کے اُس پار چل رہا ہے 
کچھ مضمحل سا میں بھی رہتا ہوں اپنے اندر
وہ بھی بہت دنوں سے بیمار چل رہا ہے 
شوریدگی ہماری ایسے تو کم نہ ہو گی 
دیکھو وہ ہو کے کتنا تیار چل رہا ہے 
تم آؤ تو کچھ اس کی مٹی اِدھر اُدھر ہو
اب تک تو دل کا رستہ ہموار چل رہا ہے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل 
نہ چھین لے کہیں تنہائی ڈر سا رہتاہے
مرے مکاں میں وہ دیوار ودر سا رہتا ہے
کبھی کبھی تو ابھرتی ہے چیخ سی کوئی
کہیں کہیں مرے اندر کھنڈر سا رہتاہے
وہ آسماں ہو کہ پرچھائیں ہو کہ تیرا خیال
کوئی تو ہے جو مرا ہم سفر سا رہتاہے
میں جوڑ جوڑ کے جس کو زمانہ کرتا ہوں 
وہ مجھ میں ٹوٹا ہوا لمحہ بھرسا رہتاہے 
ذرا سا نکلے تو یہ شہر الٹ پلٹ جائے
وہ اپنے گھر میں بہت بے ضرر سا رہتاہے
بلا رہا تھا وہ دریا کے پار سے اک دن
جبھی سے پاؤں میں میرے بھنور سا رہتا ہے
نہ جانے کیسی گرانی اٹھائے پھرتا ہوں 
نہ جانے کیا مرے کاندھے پہ سر سا رہتاہے



ایک چادر میلی سی ، ناول پر تنقید اور پیڑی آرکی 

رحمن عباس
اگر کوئی یہ سیکھنا چاہتا ہے کہ ناو ل کی تنقید کس طرح نہیں لکھنا چاہیے تو بیدی کے ناول ’ایک چادر میلی سی‘ پر شمس الحق عثمانی اوروارث علوی کے مضامین کا مطالعہ کارآمد ہے۔ یہ مضامین اس ناول کی معنویت تک رسائی کے بجائے گمراہی میں اضافہ کرتے ہیں۔ جب تنقید کسی پن پارے سے وہ معنی دریافت کرنے لگ جائے جو فن پارے کا موٹف Motif نہیں تب برآمد شدہ فرضی معنی فن پارے کے وجود ، تشکیل اور آرٹ کے شعور کو بیدار کرنے کے بجائے قار ی کو برآمد شدہ مفروضاتی معنویت کے چیستان میں پھینک دیتا ہے۔ جہاں الفاظ کابے دریغ استعمال ذہن میں اضطراب پیدا کرتا ہے ۔ یہ اضطراب فن پارے کے خوش گوار تجربے کو غارت کرتا ہے۔ معنی کی بے جا تلاش، بہ ظاہر تنقید کو رنگین اور بو قلمونی بناتی ہے لیکن اکثر وبیشتر آرٹ کی سادگی، جادوگری اور جلوہ آفرینی کو لہولہان کر دیتی ہے۔ جس طرح شمس الرحمن فاروقی میر تقی میر کے اشعارمیں وہ معنی ڈھونڈتے ہیں جو وہاں موجود نہیں ہوتے اِسی طرح وارث علوی ’ ایک چار میلی سی‘ اور بیدی کے افسانوں میں معنویت اور رمزیت تلاش کرتے ہیں ۔باوجود اس کہ بیدی کے آرٹ ،کرافٹ اور انسانی زندگی کے متعلق بیدی کے احساسات کو سمجھنے اور سمجھانے میں جس والہانہ عشق میں وارث علوی زندگی بھر گر فتار رہے، وہ قابلِ تقلید اور قابل رشک ہے۔ شمس الحق عثمانی تنقید ی مباحث قائم کرنے سے زیادہ کلرکل کام کاج میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ان کا مسئلہ فن کاری سے زیادہ فن کے معرضِ وجود میں آنے کی تاریخ اور مراحلِ اشاعت ہیں۔
وارث علوی اور شمس الحق عثمانی کی ذہانت اور محنت سے کسے انکار لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اتنی ریاضت کا تقاضا یہ ناول کرتا ہے؟اگر دونوں حضرات کو’ یولی سیس ‘اور’ مائی نیم از ریڈ‘ پر مضمون لکھنا ہوتا تو کیا ہوتا؟ فکشن کی تنقید کا یہ عیب ہے کہ وہ ’ویژ ن‘ پیدا کرنے میں رکاوٹ بن جائے اور معنی کے امکانا ت کی ترسیل میں ناکامی کا شکار ہو۔ علوی اور عثمانی کے مضامین ناول کی کہانی تفصیل سے بیان کرتے ہیں اور ہر اُس بات کی طرف توجہ مرکوز کرتے ہیں جو ہم ناول میں پڑھ چکے ہیں۔ ناول کے تمام کرداروں کے بارے میں ہمیں وہ باتیں بتاتے ہیں جو ناول پڑھتے ہوئے ہم خود محسوس کرتے ہیں۔ البتہ یہ مضامین یہ بتانے میں کامیاب نہیں ہیں کہ ’ایک چادر میلی سی‘ آدمی کے بارے میں وہ کون سی بات سامنے لاتا ہے جس سے ہم واقف نہیں تھے، یا زندگی کی کس سنگلاخ حقیقت کا پردہ چاک کرتا ہے؟ روزمرہ کی زندگی میں موجود کس رَمز کو construct یا deconstruct کرتا ہے ؟ مرد اور عورت کے تعلق کی کس گتھی سے ہمیں آشنا کرتا ہے جس کے بارے میں ہم نے پہلے سنجیدگی سے سوچا نہیں تھا؟ کیا ناول ہمیں کسی ایسی صورتِ حال سے آشنا کرتا ہے جس کا شعور ہماری سوچ میں تبدیلی اوروجدان میں ہیجان پیدا کرے ۔شمس الحق عثمانی اور وارث علوی نے ’ایک چادر میلی سی‘ کی کہانی دہرائی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ ناول اہم کیوں ہے ؟ کہانی فی نفس اہم ہے یا بیدی کے اسلوب کی وجہ سے دلچسپ ہے؟ کہانی کی دلچسپی ،کہانی کی معنویت میں اضافہ کرتی ہے یہ معنی کی غیر موجودگی کو چھپاتی ہے ؟ ہماری تنقید نے یہ ڈسکورس کیوں قائم نہیں کیا کہ ’ایک چادر میلی سی‘ کا مطالعہ ہمارے سابقہ علم، احسا س اور شعور کوکس سطح پر متاثر کرتا ہے؟ کرتا بھی ہے یا نہیں؟ ناول نگار کا تصورِ زندگی اور حسن کیسا ہے، کیاہے ؟ کیا ناول نگار عورت کی سماجی اور خانگی زندگی کی غیر انسانی صورت حال کو پیڑ ی آرکی patriarchy کی چادر کے نیچے چھپا کر اِس بات کا اظہار کر رہا ہے کہ اُس کا شعورِانسانی بالیدہ نہیں ہے؟ 
ٰٰٰٓٓٓ’ایک چادر میلی سی‘ کی تیسری ریڈنگ کے بعد میں ایک سنگین کشمکش سے دوچار ہوا ہوں ۔ ناول پر بنی فلم دیکھی ۔سوچا اچھا ہوا بیدی اِس فلم کو دیکھے بغیر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ (یاد رہے بیدی کا انتقال 11 نومبر 1984 کو ہوا اور فلم 28 اگست 1986 میں ریلز ہوئی تھی۔) یہ فلم ناول کے حسن پر کالک ملنے کا کام کرتی ہے حالانکہ ہیما مالنی کی جوانی، رانو کے بدن کی جمالیات کی بڑی حد تک نمائندگی بھی کرتی ہے۔فلم کے خراب تاثر نے کچھ ایسا اثر کیا کہ بعد مجھے یاد آیا ’ایک چادر میلی سی‘ کالج کے دنوں میں نصاب میں شامل تھی تب گوپی چند نارنگ کا ایک مضمون پڑھا تھا جو بیدی کے افسانو ں کی اساطیری اور تہذیبی جڑوں سے بحث کرتا ہے۔’فکشن شعریات تشکیل و تنقید ‘ میں گوپی چند نارنگ کا مضمون ’بیدی کے فن کی استعاراتی اور اساطیری جڑیں‘ پڑھ کر اطمینا ن ہوا کہ میں جس الجھن کا شکار تھا کم از کم یہ مضمون اس میں اضافہ نہیں کر تا بلکہ بیدی کے اسلوب ، دیو مالائی عناصر اور بیدی اور بیدی کے تصورِ جنس کو سمجھنے میں مددگارہے۔ بلاشبہ یہ مضمون بیدی کی افسانہ نگاری پر ایک عمدہ مضمون ہے اور بیدی کی فنی جہات اور آرٹ کے محرکا ت کو سمجھنے میں معاون ہے۔ نارنگ لکھتے ہیں’ایک چادر میلی سی‘میں واضح طور پر معاملہ حیاتیاتی یعنی عورت کے مرد کو قابو میں لانے اور تولیدِ نسل کے تخلیقی عمل میں اُس سے اپنے قرض کے وصول کرنے کا ہے۔نارنگ اس مضمون میں ناول کی فضا، رانو، رانو اور منگل کے رشتے کی تہذیبی اور انسانی توجیہہ پر روشنی ڈالتے ہیں اور اختصار کے ساتھ اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ ’بیدی کے تخلیقی عمل میں دیو مالائی ڈھانچا پلاٹ کی معنوی فضا کے ساتھ ساتھ از خود تعمیر ہوتا چلا جاتاہے۔ ‘اس مضمون میں نارنگ نے بیدی کے تصورِ جنس سے بھی بحث کی ہے جو نہ صرف ’ایک چادر میلی سی‘ کی جنسی فضا کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے بلکہ بیدی کے فنی نظام کی ایک مشکل کو آسان کرتا ہے۔ نارنگ لکھتے ہیں: ’یہ سامنے کی بات ہے کہ قدیم ہندوستان کا تصورِ جنس سامی تصورِ جنس سے یا جدید مغربی تصورِ جنس سے بالکل مختلف چیز ہے۔ یہ بہت ہی آزادانہ، کھلاڈلا اور بھر پور ہے، روح کی لطافت سے شاداب اور خون کی حدت سے تھرتھرایا ہوا۔سامی تصورکی سخت گیری جو مجازی لگاؤ کو شجر ممنوعہ قرار دیتی ہے ، یہاں نام کو بھی نہیں۔بے شک جسمانی لذت اور حواس کی سرشاری اس کا نقطۂ آغاز ہے لیکن یہ کیفیت اس ہوسناکی اور سفلہ پن کی طرف نہیں لے جاتی جو مغربی مزاج سے مخصوص ہے۔ جسمانی حسن کے آزادانہ اور بیباک اظہار کی وجہ سے یہاں عریانیت کے وہ معنی ہی نہیں جن سے ہمارے موجودہ ذہن آشنا ہیں۔ ‘ (فکشن شعریات: تشکیل و تنقید، صفحہ 107)یہ مضمون بیدی کے اسلوب اور اسلوب کے عناصر کو سمجھنے میں بھی کارآمد ہے۔
***
بات یوں ہے کہ’ایک چادر میلی سی‘ کے حوالے سے میری الجھن میں اضا فہ ایک کہانی نے کیا تھا جو بیدی نے اپنے مضمون ’مختصر افسانہ ‘ میں سنائی ہے۔ بیدی کے الفاظ ہیں:’’ مشرق میں ایک اور عظیم افسانہ لکھا گیا جس کے کردار راجا بھرتری ہری تھے اور ان کی رانی، جو ایک نہایت ہی حسین عورت تھی۔ بھرتری اُس کے گدازجسم کی طرف دیکھتے اور سوچتے:کیا ایسا وقت آئے گا جب اُس کے چاند سے چہرے پر جھریاں چلی آئیں گی؟ چنانچہ کسی ولی نے انھیں ایک سیب دیا اور کہا: ’اِس کے کھانے سے حسن لازوال ہو جاتا ہے، اور انسان لافانی۔‘ بھرتری ہری نے رانی کے حسن کو دوام دینے کے لیے اپنے آپ پر اسے ترجیح دی۔ وہ اس حسینہ کو ہمیشہ عالمِ تاب میں دیکھنا چاہتا تھا۔ لیکن رانی ایک نوجوان دھوبی سے پیار کرتی تھی اور ہمیشہ اسے تندرست اور جوان دیکھنا چاہتی تھی۔ چنانچہ اُس نے وہ سیب دھوبی کو دے دیا۔ جو ایک طوائف پر عاشق تھا اور جو اُس کی زندگی میں مسرت کے لمحے لاتی تھی۔ طوائف نے یہ سمجھ کر کے اُس کا جسم گناہ کی کان ہے۔ وہ سیب بھرتری ہری کی نذر کردیا کیونکہ وہ حاکمِ وقت تھا اور اُس کے دائم قائم رہنے سے لاکھوں، کروڑوں لوگوں کا بھلا اور طوائف کے اپنے گناہوں کا کفارہ ہو سکتا تھا۔۔۔۔۔ بھرتری ہری نے دنیا ترک کردی۔‘‘ اِس کہانی کو بیان کرنے کے بعد بیدی سوال کرتے ہیں :’اس کہانی میں کیا کہا گیا ہے؟ اور چند باتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن میں کہانی کی معنویت پوشیدہ ہونے کا امکان ہے۔ میرا ذہن سوال کرتا ہے کہ ’ایک چادر میلی سی‘ میں کیا کہا گیا ہے؟ 
اور ہر بار میں اس نتیجے پر پہنچا کہ بیدی نے محض کہانی بیان کی ہے اور اس کہانی کا بیان بیدی کے اسلوب کی وجہ سے بے پناہ حسین ہے۔ بیدی کا اسلو ب کیسا ہے اس پر گوپی چند نارنگ اور وارث علوی اظہار خیال کر چکے ہیں۔ اس ناول میں سارا کمال بیدی کے اسلوبِ نگارش کے سبب ہے ورنہ ناول کی کہانی کسی فلاپ فلم کی اسکرپٹ سے آگے نہیں۔ حالانکہ بیدی نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ اس ناول میں انھوں نے وہ زندگی پیش کی ہے جسے انھوں نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ان کا بیان ہے ’یہ کہانی میرے اپنے گانو کی ہے اور اس کے بہت سے کردار حقیقی ہیں۔(علی گڑھ میں خطاب: 512 کلیات راجندر سنگھ بیدی ، جلد دوم ، مرتب وارث علوی ) حالانکہ علی گڑھ میں خطاب میں بید ی نے ہیمنگ وے کے بعض ناولو ں کا ذکر کیا تھا اور کہا تھاکہ ’’میں یہ چاہتا تھا کہ اردو میں اس طرح کا ناول لکھوں جو ایک وحدت بن سکے اور زندگی سے اس کا رشتہ حقیقی اور گہرا ہو۔۔۔۔’ایک چادر میلی سی‘ میں ، میں نے کوشش کی ہے۔‘‘ بیدی نے جس کوشش کی بات کی ہے کیا وہ اُس میں کامیاب ہوئے؟ جبکہ انہی برسوں One Hundred Years of Solitude (Gabriel Garcia Markquez), A Clockwork Orane (Anthony Burgess), Catch-22 (Joseph Heller), The French Lieutenant's Woman( John Fowles), Cancer Ward (Aleksandr Solzhenitsyn), Herzog (Saul Bellow), The Golden Notebook (Doris Lessing), The Joke (Milan Kundera), and A House of Mr Biswas( V S Naipaul) کے علاوہ سیکڑوں اہم ناول ادب کی دنیا میں سامنے آچکے تھے۔
’ایک چادر میلی سی ‘ کے بارے میں جو فلسفیانہ رائے وارث علوی کی ہے یا متن کی جس طرح تشریح شمس الحق عثمانی نے کی ہے اس سے پرے ، خود بیدی نے ناول کی کہانی کے بارے میں ایک مضمون ’گیتا‘ میں لکھا ہے : ’ایک چادر میلی سی‘ کی کہانی ہماری مروجہ فلمی کہانیوں سے یکسر الگ تھی۔ چھوٹتے ہی اس کی نائیکہ رانو چار بچوں کی ماں دکھائی دیتی تھی۔ پھر اپنی بدکرداری کے کارن اس کا پتی قتل ہو جاتا ہے اور رانو کو اپنے دیور پر چادر ڈالنا، اس کے ساتھ شادی کرنا پڑتی تھی ، جو عمر میں اس سے گیارہ سال چھوٹا تھا اور جسے اس نے ایک بچے کی طرح پالا تھا۔ گیتا کو رانو کے کردار میں ایک بڑی رینج دکھائی دی اور وہ اس پر مرمٹی۔رانو اور گیتامیں کیا ممثلت تھی؟ غالباً یہی کہ دونوں نے دکھ دیکھا تھا۔ اپنی فلسفیانہ تحلیل میں رانو دیوی تھی کیونکہ اس نے زندگی کو ایک بھر پور طریقے سے جیا۔ اس نے مارکھائی، مار۔ اپنے پیٹ ، اپنی بیٹی، اپنی محبت کے لیے ،اس نے میٹھے مالٹے، شراب کی بوتل توڑی اور پھر اپنے دیور کو رام کرنے کے لیے اسے پلائی بھی۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود دیور نے اس کے سارے پاپ چھما کردے۔یہی نہیں وہ خود دیوی ہوگئی۔۔۔۔دَیا اور کرونا کے پرساد بانٹنے لگی۔۔۔رانو کے کردار نے گیتا کے دل میں ایک عجیب سی گھلاوٹ پیدا کر دی تھی اور وہ جان گئی تھی کہ زندگی کے بھلے برے کے آخر میں موکش ہے۔(گیتا: 486 کلیات راجندر سنگھ بیدی جلد دوم)
مرد اور عورت کی زندگی کی اس کہانی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ عورت ایثارِ نفسی اور گھر گرہستی کے لیے ہر طرح کی قربانی دیتی ہے اور مرد کی سفاکی کے برعکس ممتا کی مورت بن جاتی ہے۔اگر ناول کا یہ مرکزی تھیم ہے تو اس میں کونسی نئی بات یا جدت یا انسانی زندگی کی پے چیدگی کی کونسی تہہ داری ہے۔ہندستان کا وہ کونسا گانو یا شہر ہے جہاں عورت قربانی نہیں دیتی، شوہر کا مار نہیں کھاتی اور روزانہ اپنی ذلت میں اضافہ نہیں کرتی۔ ہم یہ سوال کیوں نہیں کر تے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جس کے سبب عورت ایک ایسی مخلوق میں بدل گئی ہے جو ذلت، اذیت اور کسم پرسی میں خوش رہتی ہے ۔ ذلت و رسوائی کی ماری عورت کو بیدی کیوں دیوی تصور کرتے ہیں؟ 
ہمارے سماج میں عورت کا وجود اِس سماج کے زوال کا اشاریہ ہے جہاں اُس کی شناخت دراصل معدوم ہو چکی ہے۔ رانو کے کردار میں یقیناًبڑی رینج ہے لیکن بیدی نے رانو کو ایک مرد کی نظر سے زیادہ درشایا ہے ۔ یہ سفاک حقیقت نگاری نہیں ہے بلکہ پیٹری آر کی patriarchy کی عینک سے د یکھی گئی ایک تصویر ہے جس میں ذلت کی ماری عورت کو ہیروئک بنا کر معاشرے کے سفاکی کو کلین چٹ دی جاتی ہے۔ عورت کے وجود کی تذلیل کو مذہبی اور اساطیر ی رنگوں سے سجایا گیا جس کا منشا ،رانو کی اذیت اور المناکی کو قابلِ برداشت بنانا ہے۔مذہبی ، سماجی اور معاشرتی منظرنامہ عورت کی شناخت کے بحران کو اجا گر کرنے کے بجائے شناخت اور ذات کی موت کو پرکشش بنانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے جس کی جڑیں اساطیر اور تہذیبی پس منظر میں نہیں بلکہ پیٹری آرکی ((Patriarchyمیں دفن ہیں۔ یہ کام بیدی نے شعور کی سطح پر نہیں کیا ہے بلکہ بیدی کے مرد اورعورت کے تصور کا غیر شعوری اظہار ہے۔ بیدی کا تصورِ جنس ،تصورِ عورت سے مختلف ہے اور ابھی تنقید نے ان دونوں میں امتیاز نہیں کیا ہے ۔ اگر بیدی اس بات سے واقف نہیں تھے کہ بھارت خواتین دشمن معاشرہ ہے تو بیدی کا یہ ناول اس بات کی توثیق کرتا ہے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مردانہ سوچ، عورت دشمن معاشرے کی خالق ہے۔ بیدی معاشرے کے فرد اور مرد ہونے کے ناتے عورت کو اُس کی مجروح اور المناک صورت میں دیوی کادرجہ عطا کرتے ہیں۔یہ بتانا غیر ضروری نہیں کہ حالیہ دنوں پارلیمان میں پیش کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق 2012-14 کے دوران 24700 عورتوں کا قتل کیا گیا ہے۔ دیوی کاسمان دیے بنا یہ قتل ممکن نہیں تھا۔ رانو کے صبر کے بارے میں وارث علوی نے ایک متنازعہ بات لکھی ہے اور اِس کا سبب ان کی بیدی کی پرستش ہے۔ وہ لکھتے ہیں:’صبر شخصیت کے ارتباط کو قائم رکھنے کا مظلوم کا سب سے طاقتور حربہ ہے۔ صبر کی طاقت ہی رانو کو غم پسند اور اذیت پسند بننے نہی دیتی، جو کمزور شخصیت کے بیمار ذہنی رویے ہیں۔ صبر طاقتور ذہن کا وصف ہے جو سوچتا ہے کہ یہ دن بھی گذر ہی جائیں گے۔‘ ( ایک چادر میلی سی : ۴۴۱ ۔ راجندر سنگھ بیدی ایک مطالعہ)۔ اسی مضمون میں وارث علوی نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایثار نفسی میں وہ (رانو) دیوی ہے لیکن مرد کو دیوی بن کر نہیں سیج کی ویشیا بن کر ہی رام کیا جاسکتا ہے۔ اور رانو ہی کرتی ہے۔ (ایضاً) 
***
بیدی پنجاب کی زندگی کو اس ناول میں قید کرنا چاہتے تھے ۔ اس آرزو کے ساتھ علاقائیت کی ایک متھ بھی ان کے دل میں بسی ہوئی تھی جس کا اظہار انھوں نے کچھ یوں کیا ہے :’’پنجابی دنیا کا ماتم نہیں کرنے آیا اور نہ فلسفہ دانی اس کا نصب العین ہے۔ وہ جو اندر سے ہے وہ ہی باہر سے ۔۔اس کے جیون کا رہسیہ ہی یہ ہے کہ کوئی رہسیہ نہیں۔ ۔۔۔پنجاب اور پنجابی کبھی ناش نہیں ہو سکتے۔ نہ معلوم انھوں نے کون سی امر کتھا سنی ہے جس میں وہ اُونگھ بھی گئے اور پا بھی گئے۔ پی بھی گئے اور چھلکا بھی گئے۔ زندگی کے رونے دھونے سے ان کی تپسیا پوری نہیں ہوتی۔ ۔۔ہاں۔۔ہنسنے کھیلنے، کھانے اور پہننے ہی میں ان کا موکش ہے۔ ‘‘ (پیش لفظ ۔۔ایک چادر میلی سی۔۵ فروری ۱۹۶۴ ) بیدی نے ناول کے پلاٹ کی تعمیر اسی خیال پر رکھی ہے اور اسی لیے تشدد، قتل، عصمت دری، جذبۂ جنس کی سرمستی اور توہمات کے پس منظر میں زندگی کا سارا رس کس نچوڑکر موکش حاصل کرنے کا ایک سفر جاری ہے۔ بید ی نے پنجاب کی زندگی کا عکس پیش کرنے میں بلاشبہ کامیابی حاصل کی ہے ۔ دوسری طرف پنجاب کی زندگی کی رنگینی کے ساتھ معاشرتی سطح پر پنجابی افراد کے بارے میں ایک رہسہ بھی سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کی زندگی کا کوئی رہسیہ نہیں ہے۔ 
ناول میں ایک قابلِ ذکر خوبی وہ بھی ہے جس کی طرف وارث علوی نے اشارہ کیا تھا کہ’ یہ ناول عورت کی بپتا کا افسانہ نہیں بلکہ نامساعد حالات اور حیات کش قوتوں کے خلاف ایک عورت کی جدوجہد کا افسانہ ہے ‘،لیکن یہ جدوجہد محض رانو کی جدوجہد کے سبب قابل مطالعہ نہیں ہے بلکہ بیدی کے اسلو ب کا جادو ہے کہ ایک معمولی فلمی پلاٹ کو انھوں نے ایک قابلِ ذکر ناول میں بدل دیا۔ یہی بڑے لکھنے والے کی پہچان ہے۔
بیدی کہیں نہ کہیں ہمینگ وے کی ناول نگاری کو پسند کرتے تھے ۔انھوں نے لکھا ہے ’خودکشی سے چند ہی مہینے پہلے ہیمنگ وے نے کہا تھا کہ ’’میں نے اپنی تحریروں میں طالسٹائی اور بالزاک، موپاساں اور چیخوف کو سمو لیا ہے‘، اور یہ امر واقع ہے کہ ان کی کہانیوں میں ہمیں ان سب استادوں کا ایک خوب صورت سا امتزاج نظرآتا ہے۔‘‘ (مختصر افسانہ ، صفحہ۵۱۷) جبکہ’ ایک چادر میلی سی‘ میں ہمیں کسی استا د کا کوئی رنگ نہیں ملتا ۔یہ ناول اپنی معراج میں صرف اور صرف بیدی کے اسلوب سے مزین ہے۔ناول کی ادبی قدروقیمت بھی اِسی ارفع اسلوب میں پوشیدہ ہے