Tuesday, January 31, 2017




ٹوم اولٹر


نوشتہ بماند سیہ بر سفید 
(قسطِ اوّل)
اس شمارے میں ہم مشہور تھیٹر آرٹسٹ اور فلم ادا کار تھومس بیچ اولٹر (Thomas Beach Alter) المعروف بہ ٹوم اولٹر (Tom Alter) کی خود نوشت سوانح کی پہلی قسط شائع کررہے ہیں جو انھوں نے خصوصی طور پر ’اردو ادب‘ کے لیے تحریر کی ہے۔ٹوم اولٹر نے وعدہ کیا ہے کہ وہ سرِ دست اپنی خود نوشت سوانح کے کم سے کم پانچ باب ضرور لکھیں گے جن میں پہلا باب ان کے مختصر حالاتِ زندگی اور ان محرکات پر مبنی ہوگا جو انھیں تھیٹر اور فلم کی دنیا کی طرف لے گئے۔ اس کے بعد کے ابواب ان کی اردو تھیٹر سے وابستگی، ہندستان میں انگریزی تھیٹر اور اس سے ٹوم اولٹر کا تعلق، فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا (FTII) پونے اور امریکہ میں ان کے دورِ طالبِ علمی اور اس وقت کے سیاسی و ثقافتی حالات اور بمبئی کی فلمی زندگی پر مشتمل ہوں گے۔ ٹوم اولٹر جب امریکہ میں تھے تو وہ زمانہ امریکہ اور ویت نام کی جنگ کا زمانہ تھا۔ ہمیں توقع ہے کہ ٹوم اولٹر جو کسی بھی طرح اصطلاحی اردو والوں میں شمار نہیں ہوسکتے، ان کی اردو ادب، ثقافت اور تہذیب نیز تھیٹر سے وابستگی کے کچھ مرقّع یہ خود نوشت سوانح قارئین کے لیے ضرور پیش کرسکے گی۔ غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی نے ٹوم اولٹر کو ڈرامے کا انعام (ہم سب غالب انعام براے اردو ڈرامہ) 2014 میں دیا جو اس بات کا غماز ہے کہ اردو دنیا نےاردو ڈرامے کے لیے ان کی خدمات کا دیر سے ہی سہی مگر اعتراف کیا۔ 
(ادارہ )

آج یکم مئی (May Day) 
یعنی مزدوروں کا دن ہے جس میں ہر وہ شخص چھٹی منانے کا حق دار ہوتا ہے جو کسی بھی سطح پر خود کو
 مزدور تصوّر کرے۔ فلمی دنیا کے بھی بہت سے لوگ اِس دن کام نہیں کرتے مگر میں آج بھی اس لیے کام کر رہا ہوں کہ موجودہ سامراجی نظام نے مزدوروں کے حالات اتنے خراب کردیے ہیں کہ اب ان کے لیے یکم مئی کو بھی چھٹی منانا ممکن نہیں رہ گیا ہے۔ اپنی خود نوشت سوانح کی تحریر کا کام بھی میں آج ہی شروع کررہا ہوں کہ یومِ مئی سے زیادہ مناسب دن ایک مزدور کے لیے دوسرا نہیں ہوسکتا۔2016 کی ایک افادیت یہ بھی ہے کہ اس برس میرے خاندان کو ہندستان میں آئے ہوئے پورے سو برس ہوگئے۔
میں 22جون 190 کو پیدا ہوا، اس اعتبار سے اب میری عمر تقریباً 66 برس ہے۔ خواجہ احمد عبّاس جب ساٹھ سال کے ہوئے تو انھوں نے اپنی خود نوشت سوانح (I am not an Island) لکھنی شروع کی تھی۔ خواجہ احمد عباس نے کسی اور ایک مقام پر ایک بڑی اہم بات کہی تھی جو ہم سب کو یاد رکھنی چاہیے :
’’ 7جون 1914 (ولادت پانی پت) سے دسمبر 1976 (بمبئی) تک میرے حصّے میں جتنے بھی شب و روز آئے ہیں ، ان پر میرا کوئی اجارہ نہیں۔
میں خواجہ احمد عبّاس ، کہانی کار، صحافی، فلم سازاور ہدایت کار کے روپ میں پَل پَل جیتا رہا ہوں۔ کتنی بار سوچا ہے کہ خود کو کسی ایک سانچے میں ’’فٹ‘‘ کرلوں، تاکہ یہ شب و روز میرے اپنے ہوجائیں لیکن یہ دیکھ کر اور سوچ کر کہ میری نسل نے جس ادبی، صحافتی، سیاسی اور سماجی انقلاب کی بنیاد رکھی تھی وہ ابھی تک مکمل نہیں ہوا ہے، میں نے خود کو علاحدہ علاحدہ شعبوں میں اس لیے تقسیم کردیا ہے کیوں کہ جب انقلاب آتا ہے تو وہ زندگی کے صرف ایک شعبے میں نہیں آتا بلکہ زندگی ، سیاست ، ادب ، صحافت، کلچر، زبان، ثقافت اور معاشیات کے مختلف النوع پہلوؤں کو بھی اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔‘‘ 
خواجہ احمد عباس نہ صرف وسیع الجہات شخصیت کے مالک تھے بلکہ اپنی غیر معمولی دیانت داری اور سوشل کمٹ منٹ نیز اصولوں کے معاملے میں کسی بھی قسم کی مفاہمت نہ کرنے کی وجہ سے بمبئی کی فلمی دنیا میں ان کی جو عزّت تھی اُس کی دوسری کوئی مثال شاید ہی ملے۔ میری بھی یہ مسلسل کوشش رہتی ہے کہ میرے پلے کسی نہ کسی زاویے سے سماجی مسائل کی نشا ن دہی ضرور کریں۔ ان 
کی زبان اس سماجی پیچیدگی کی آئینہ دار ہو جس کی عکّاسی پلے میں کی گئی ہے۔ 
انگریزی میں اکثر خود نوشت سوانح نگار To pegin with the beginning کے اصول پر عمل کرتے ہیں۔ میرے جیسے شخص کے لیے جو وقت کی قلّت کی وجہ سے اپنی تحریروں کو بہت کم وقت دے سکا ہے، اس تحریر کی ابتدا کے لیے شروعات سے شروع کرنے کا طریقہ آسان ہے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ میرے اردو کے استاد نے بہت سختی کے ساتھ لفظ شروعات کے استعمال کی ممانعت کی تھی کیوں کہ استادِ محترم کے مطابق یہ لفظ از روے قواعد غلط ہے مگر اردو جیسی زبان کی قوت ہی لفظوں کو اپنی مخصوص لسانی ساخت میں ڈھال لینا ہے، اس لیے، مجھے Begin from the beginning کے لیے شروعات سے شروع کرنے کا فقرہ اپنی نہایت محدود علمی صلاحیتوں کی وجہ سے مناسب معلوم ہوتا ہے۔
میری والدہ مرحومہ باربرا صاحبہ نے مجھے ایک بہت ہی اچھی بات بتائی تھی کہ جس مقام پر ایک بچّہ رحمِ ماد ر میں اپنا وجود قائم کرتا ہے ، اصولاً اس کی جاے پیدائش وہی جگہ ہونی چاہیے۔ اس اصول کی رو سے میرے وجود نے رحمِ ماد ر میں جگہ تو مری جو موجودہ پاکستان کا پُر فضا پہاڑی مقام ہے، میں بنائی لیکن پیدائش کا مقام مسوری ہے جو اَب ہندستان کے صوبۂ اُترا کھنڈ میں ہے اور میری پیدائش کے وقت اترپردیش میں تھا ۔مَری اور مسوری دونوں ہی سے ہمارا خاص تعلق ہے کیوں کہ مری میں ایک کرسچن اسکول ہے جس کے قیام میں میرے دادا ایم. اے. اولٹر نے فیصلہ کُن رول ادا کیا تھاجو بعد میں مسوری کے مشہورِ زمانہ Woodstock اسکول کے پرنسپل بھی رہے۔ 
مَری، پاکستان کا وہ کرسچن اسکول اب بھی چل رہا ہے۔ اس کا نام ہی ’مری کرسچن اسکول ‘ ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اس اسکول پر تقریباً بیس سال پہلے ایک حملہ ہوا تھا جس میں کئی لوگ مارے گئے تھے۔ 
میرے دادا اور دادی ٹھیک سو سال پہلے 1916 میں پہلی عالمی جنگ (First World War) کے زمانے میں ہندستان آئے تھے اور پنجاب کے اس حصّے میں جو اَب پاکستان میں ہے، سکونت پذیر ہوگئے تھے۔ خاندان کے افراد راول پنڈی، مری، پشاور اور سیالکوٹ کے علاقے میں رہتے تھے۔ میرے والد کی پیدائش سیالکوٹ کی تھی۔
مغربی ممالک اور مغربی نژاد ان خاندانوں میں بھی جو ایشیا میں بس گئے ، خاندان کی تفصیلات کو محفوظ کرنے کا عمل عام ہے مگر اغلب ہے 
کہ ہمارے خاندان میں اب یہ تفصیلات موجود نہیں یا کم سے کم مجھے ان کا علم نہیں۔
میری والدہ کے خاندان کا تعلق یونائیٹڈ اسٹیٹ کے اس علاقے سے ہے جسے نیو انگلینڈ کہتے ہیں اور والد صاحب کے خاندان کا تعلق ہائی اسٹیٹ سے ہے لیکن اس سلسلے میں بھی میرے پاس تفصیلی معلومات شاید اس لیے نہیں ہے کہ ہمارے خاندان کو سو سال تو ہندستان ہی میں ہوگئے ہیں اور اب یہاں ہماری پانچویں نسل ہے ۔ بیٹے جمی اولٹر نے راجستھان کے ایک ہندو خاندان میں شادی کی ہے اور بیٹی افشاں امریکہ میں قیام پذیر ہے۔
میری پیدائش کے زمانے میں میرے والدین الہ آباد میں اس لیے رہتے تھے کہ والد صاحب ایونگ کرسچن کالج(Ewing Christian College) میں انگریزی کے اُستاد تھے۔ ایک زمانے میں اس کالج کا بڑا نام تھا۔ اردو کے مشہور مصنّف ابنِ صفی اور صاحبِ اسلوب اور کج کلاہ شاعر مصطفےٰ زیدی بھی اسی کالج کے طالبِ علم رہ چکے ہیں۔ یہ دونوں ہی پاکستان چلے گئے تھے۔ مصطفےٰ زیدی نے سول سروس جوائن کی مگر دنیا کے معاملات سے ان کی پوری طرح عدمِ واقفیت کے سبب ان کی زندگی کا خاتمہ پُر اسرار موت پر ہوا۔ 
میرے والد نے ایونگ کرسچن کالج 1946 میں جوائن کیا تھا۔ تقسیمِ ہندستان کے وقت وہ الٰہ آباد ہی میں تھے۔میرے والد الہ آباد سے وابستہ دو مخصوص واقعات کو خاص طور پر یاد کرتے تھے جن میں ایک تو اس لمحے کے غیر معمولی تاثر سے وابستہ تھا جب آزادی کی رات پنڈت نہرو کی مشہورِ زمانہ تقریر150150 Tryst with Destiny جو ریڈیو سے براڈ کاسٹ ہوئی تھی۔ دوسرے اس لمحے کو جب گاندھی جی کا انتقال ہوا اور ان کی راکھ کو گنگا میں بہانے کے لیے الہ آباد لایا گیا۔ اس وقت آل انڈیا ریڈیو والوں نے براہِ راست نشریات کے مقصد سے ایک بہت بڑا ٹاور کھڑا کیا تھاجس پر ایم. ڈیملو کے ساتھ میرے والد بھی بیٹھے تھے۔ میرے والد مجھے بتاتے تھے کہ آٹھ گھنٹے تک یہ لوگ اوپر بیٹھ کر وہاں سے آل انڈیا ریڈیوکے لیے کمنٹری کرتے رہے مگر اس آٹھ گھنٹے کے عرصے میں وہاں تمام وقت سنّاٹا چھایا رہا۔ کوئی کسی سے بات نہیں کر رہا تھا۔ پھر نہرو اور پٹیل اس کشتی میں آئے جس میں گاندھی جی کی آخری رسوم کے بعدکی باقیات گنگا کے حوالے کرنے کے لیے رکھی ہوئی تھیں۔ تین چار لاکھ لوگوں کامجمع بڑی خاموشی سے یہ نظّارہ دیکھ رہا تھاجو اس غیر معمولی عزت و احترام کا علامیہ تھا جو عوام کے دلوں میں اپنے اس عظیم رہ نما کے لیے تھی۔
میرے والدین نے مسوری اور دہرہ دون کے بیچ راج پور جو اَب ایک بڑا قصبہ بن چکا ہے، میں ایک آشرم قائم کیا تھا جس کا نام انھوں نے ’مسیحی دھیان کیندر‘ رکھا تھا۔میری پرورش اسی راج پور یا مسوری میں ہوئی۔ راج پور قصبے میں اچھا خاصا مارکیٹ اور بازار تھا جہاں میں رہتے تھے لیکن تقسیم کے وقت سب کو وہاں سے نیست و نابود کردیا گیا۔ جب میں چھوٹا تھا تو دیکھتا تھا کہ وہ سب دوکانیں اور عمارتیں خاکستر ہوچکی ہیں جو کبھی مسلمانوں کی ملکیت تھیں۔ میں اپنے والد کے ساتھ جب وہاں سے گزرتا تھا تو اکثر اُن سے پوچھتا تھا کہ ڈیڈی یہ دوکانیں اور عمارتیں ایسی کیوں ہیں تو وہ کچھ بتاتے نہیں تھے۔ بعد میں جب میں تھوڑا بڑا ہوا، سمجھ لیجیے کہ کوئی دس سال کا تو میری والدہ نے مجھے بتایا کہ یہ سب مسلمانوں کی دوکانیں اور مکانات تھے جنھیں تقسیمِ ہندستان کے وقت نذرِ آتش کرد یا گیا۔ شاید میرے والد صاحب ایسے دکھ اور درد سے میرے معصوم ذہن کو دور رکھنا چاہتے تھے ۔ 
آزادی کے بعد ایک طرح سے ہمارے خاندان کا بھی باقاعدہ بٹوارہ ہوا۔ ہمارے دادا اور دادی دونوں پاکستان میں رہ گئے۔میرے دادا کا بہت جلدی غالباً 1952-53 میں انتقال ہوگیا، اس لیے، ان کے بارے میں مجھے کچھ یاد نہیں ہے لیکن میری دادی تقسیم کے بعد بہت دنوں تک حیات رہیں۔ وہ بالکل میم صاحبہ کی طرح تھیں۔ ہم لوگوں سے ملاقات کرنے کے لیے وہ جب بھی ہندستان آتی تھیں تو بہت فخر سے کہتیں کہ میں تو پاکستانی ہوں۔ دادا کے انتقال کے بعد وہ امریکہ چلی گئیں۔ میری دادی کی ایک دل چسپ بات یہ تھی کہ وہ جب جب ہندستان آتی تھیں تو یہاں کی ہر چیز میں کوئی نہ کوئی نَقص نکالتی تھیں۔ مثلاً سڑکوں اور ٹریفک کو لے کر وہ اکثر کہتیں کہ پاکستان میں تو ایسا نہیں ہے ۔وہاں تو سڑکیں کافی کشادہ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ سُن کر ہم ان سے خفا ہوجایا کرتے تھے کہ یہ پاکستان کی کیوں تعریف کرتی رہتی ہیں۔ بہر حال ہند و پاک کے درمیان ہونے والے عجیب و غریب بٹوارے سے ہمارا خاندان بھی محفوظ نہ رہ سکا۔
بٹوارے کے وقت جو ہمارے سب سے چھوٹے چچا تھے وہ ہندستان میں ہی تھے۔والد صاحب کے دو اور بھائی150 جو بیچ کے تھے150 وہ امریکہ میں تھے۔والدین اور چھوٹے چچا سب اس طرف یعنی ہندستان میں رہے اور دادا دادی نے پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی۔ وہ زمانہ تو میں نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھالیکن جیسا کہ میں کہہ رہا تھا کہ میرے والد کو بہ طورِ خاص تاریخ میں اور ان چیزوں میں بہت زیادہ دل چسپی تھی جن کا تعلق تقسیمِ ملک کے واقعات سے تھا۔ وہ اکثر صبح کے ناشتے پر تقسیمِ ہندستان، آزادی، ڈیموکریسی اور مذہب کی باتیں کرتے تھے۔ بٹوارہ کیوں ہوا، اس کی کیا ضرورت تھی جیسے سوالوں نے انھیں زندگی بھر پریشا ن رکھا۔ میرے والد کو کمیونزم میں دل چسپی تھی اور وہ مولانا آزاد کو بھی بہت پسند کرتے تھے۔
                 (جاری   )           

No comments:

Post a Comment