Tuesday, January 31, 2017




ایک چادر میلی سی ، ناول پر تنقید اور پیڑی آرکی 

رحمن عباس
اگر کوئی یہ سیکھنا چاہتا ہے کہ ناو ل کی تنقید کس طرح نہیں لکھنا چاہیے تو بیدی کے ناول ’ایک چادر میلی سی‘ پر شمس الحق عثمانی اوروارث علوی کے مضامین کا مطالعہ کارآمد ہے۔ یہ مضامین اس ناول کی معنویت تک رسائی کے بجائے گمراہی میں اضافہ کرتے ہیں۔ جب تنقید کسی پن پارے سے وہ معنی دریافت کرنے لگ جائے جو فن پارے کا موٹف Motif نہیں تب برآمد شدہ فرضی معنی فن پارے کے وجود ، تشکیل اور آرٹ کے شعور کو بیدار کرنے کے بجائے قار ی کو برآمد شدہ مفروضاتی معنویت کے چیستان میں پھینک دیتا ہے۔ جہاں الفاظ کابے دریغ استعمال ذہن میں اضطراب پیدا کرتا ہے ۔ یہ اضطراب فن پارے کے خوش گوار تجربے کو غارت کرتا ہے۔ معنی کی بے جا تلاش، بہ ظاہر تنقید کو رنگین اور بو قلمونی بناتی ہے لیکن اکثر وبیشتر آرٹ کی سادگی، جادوگری اور جلوہ آفرینی کو لہولہان کر دیتی ہے۔ جس طرح شمس الرحمن فاروقی میر تقی میر کے اشعارمیں وہ معنی ڈھونڈتے ہیں جو وہاں موجود نہیں ہوتے اِسی طرح وارث علوی ’ ایک چار میلی سی‘ اور بیدی کے افسانوں میں معنویت اور رمزیت تلاش کرتے ہیں ۔باوجود اس کہ بیدی کے آرٹ ،کرافٹ اور انسانی زندگی کے متعلق بیدی کے احساسات کو سمجھنے اور سمجھانے میں جس والہانہ عشق میں وارث علوی زندگی بھر گر فتار رہے، وہ قابلِ تقلید اور قابل رشک ہے۔ شمس الحق عثمانی تنقید ی مباحث قائم کرنے سے زیادہ کلرکل کام کاج میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ان کا مسئلہ فن کاری سے زیادہ فن کے معرضِ وجود میں آنے کی تاریخ اور مراحلِ اشاعت ہیں۔
وارث علوی اور شمس الحق عثمانی کی ذہانت اور محنت سے کسے انکار لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اتنی ریاضت کا تقاضا یہ ناول کرتا ہے؟اگر دونوں حضرات کو’ یولی سیس ‘اور’ مائی نیم از ریڈ‘ پر مضمون لکھنا ہوتا تو کیا ہوتا؟ فکشن کی تنقید کا یہ عیب ہے کہ وہ ’ویژ ن‘ پیدا کرنے میں رکاوٹ بن جائے اور معنی کے امکانا ت کی ترسیل میں ناکامی کا شکار ہو۔ علوی اور عثمانی کے مضامین ناول کی کہانی تفصیل سے بیان کرتے ہیں اور ہر اُس بات کی طرف توجہ مرکوز کرتے ہیں جو ہم ناول میں پڑھ چکے ہیں۔ ناول کے تمام کرداروں کے بارے میں ہمیں وہ باتیں بتاتے ہیں جو ناول پڑھتے ہوئے ہم خود محسوس کرتے ہیں۔ البتہ یہ مضامین یہ بتانے میں کامیاب نہیں ہیں کہ ’ایک چادر میلی سی‘ آدمی کے بارے میں وہ کون سی بات سامنے لاتا ہے جس سے ہم واقف نہیں تھے، یا زندگی کی کس سنگلاخ حقیقت کا پردہ چاک کرتا ہے؟ روزمرہ کی زندگی میں موجود کس رَمز کو construct یا deconstruct کرتا ہے ؟ مرد اور عورت کے تعلق کی کس گتھی سے ہمیں آشنا کرتا ہے جس کے بارے میں ہم نے پہلے سنجیدگی سے سوچا نہیں تھا؟ کیا ناول ہمیں کسی ایسی صورتِ حال سے آشنا کرتا ہے جس کا شعور ہماری سوچ میں تبدیلی اوروجدان میں ہیجان پیدا کرے ۔شمس الحق عثمانی اور وارث علوی نے ’ایک چادر میلی سی‘ کی کہانی دہرائی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ ناول اہم کیوں ہے ؟ کہانی فی نفس اہم ہے یا بیدی کے اسلوب کی وجہ سے دلچسپ ہے؟ کہانی کی دلچسپی ،کہانی کی معنویت میں اضافہ کرتی ہے یہ معنی کی غیر موجودگی کو چھپاتی ہے ؟ ہماری تنقید نے یہ ڈسکورس کیوں قائم نہیں کیا کہ ’ایک چادر میلی سی‘ کا مطالعہ ہمارے سابقہ علم، احسا س اور شعور کوکس سطح پر متاثر کرتا ہے؟ کرتا بھی ہے یا نہیں؟ ناول نگار کا تصورِ زندگی اور حسن کیسا ہے، کیاہے ؟ کیا ناول نگار عورت کی سماجی اور خانگی زندگی کی غیر انسانی صورت حال کو پیڑ ی آرکی patriarchy کی چادر کے نیچے چھپا کر اِس بات کا اظہار کر رہا ہے کہ اُس کا شعورِانسانی بالیدہ نہیں ہے؟ 
ٰٰٰٓٓٓ’ایک چادر میلی سی‘ کی تیسری ریڈنگ کے بعد میں ایک سنگین کشمکش سے دوچار ہوا ہوں ۔ ناول پر بنی فلم دیکھی ۔سوچا اچھا ہوا بیدی اِس فلم کو دیکھے بغیر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ (یاد رہے بیدی کا انتقال 11 نومبر 1984 کو ہوا اور فلم 28 اگست 1986 میں ریلز ہوئی تھی۔) یہ فلم ناول کے حسن پر کالک ملنے کا کام کرتی ہے حالانکہ ہیما مالنی کی جوانی، رانو کے بدن کی جمالیات کی بڑی حد تک نمائندگی بھی کرتی ہے۔فلم کے خراب تاثر نے کچھ ایسا اثر کیا کہ بعد مجھے یاد آیا ’ایک چادر میلی سی‘ کالج کے دنوں میں نصاب میں شامل تھی تب گوپی چند نارنگ کا ایک مضمون پڑھا تھا جو بیدی کے افسانو ں کی اساطیری اور تہذیبی جڑوں سے بحث کرتا ہے۔’فکشن شعریات تشکیل و تنقید ‘ میں گوپی چند نارنگ کا مضمون ’بیدی کے فن کی استعاراتی اور اساطیری جڑیں‘ پڑھ کر اطمینا ن ہوا کہ میں جس الجھن کا شکار تھا کم از کم یہ مضمون اس میں اضافہ نہیں کر تا بلکہ بیدی کے اسلوب ، دیو مالائی عناصر اور بیدی اور بیدی کے تصورِ جنس کو سمجھنے میں مددگارہے۔ بلاشبہ یہ مضمون بیدی کی افسانہ نگاری پر ایک عمدہ مضمون ہے اور بیدی کی فنی جہات اور آرٹ کے محرکا ت کو سمجھنے میں معاون ہے۔ نارنگ لکھتے ہیں’ایک چادر میلی سی‘میں واضح طور پر معاملہ حیاتیاتی یعنی عورت کے مرد کو قابو میں لانے اور تولیدِ نسل کے تخلیقی عمل میں اُس سے اپنے قرض کے وصول کرنے کا ہے۔نارنگ اس مضمون میں ناول کی فضا، رانو، رانو اور منگل کے رشتے کی تہذیبی اور انسانی توجیہہ پر روشنی ڈالتے ہیں اور اختصار کے ساتھ اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ ’بیدی کے تخلیقی عمل میں دیو مالائی ڈھانچا پلاٹ کی معنوی فضا کے ساتھ ساتھ از خود تعمیر ہوتا چلا جاتاہے۔ ‘اس مضمون میں نارنگ نے بیدی کے تصورِ جنس سے بھی بحث کی ہے جو نہ صرف ’ایک چادر میلی سی‘ کی جنسی فضا کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے بلکہ بیدی کے فنی نظام کی ایک مشکل کو آسان کرتا ہے۔ نارنگ لکھتے ہیں: ’یہ سامنے کی بات ہے کہ قدیم ہندوستان کا تصورِ جنس سامی تصورِ جنس سے یا جدید مغربی تصورِ جنس سے بالکل مختلف چیز ہے۔ یہ بہت ہی آزادانہ، کھلاڈلا اور بھر پور ہے، روح کی لطافت سے شاداب اور خون کی حدت سے تھرتھرایا ہوا۔سامی تصورکی سخت گیری جو مجازی لگاؤ کو شجر ممنوعہ قرار دیتی ہے ، یہاں نام کو بھی نہیں۔بے شک جسمانی لذت اور حواس کی سرشاری اس کا نقطۂ آغاز ہے لیکن یہ کیفیت اس ہوسناکی اور سفلہ پن کی طرف نہیں لے جاتی جو مغربی مزاج سے مخصوص ہے۔ جسمانی حسن کے آزادانہ اور بیباک اظہار کی وجہ سے یہاں عریانیت کے وہ معنی ہی نہیں جن سے ہمارے موجودہ ذہن آشنا ہیں۔ ‘ (فکشن شعریات: تشکیل و تنقید، صفحہ 107)یہ مضمون بیدی کے اسلوب اور اسلوب کے عناصر کو سمجھنے میں بھی کارآمد ہے۔
***
بات یوں ہے کہ’ایک چادر میلی سی‘ کے حوالے سے میری الجھن میں اضا فہ ایک کہانی نے کیا تھا جو بیدی نے اپنے مضمون ’مختصر افسانہ ‘ میں سنائی ہے۔ بیدی کے الفاظ ہیں:’’ مشرق میں ایک اور عظیم افسانہ لکھا گیا جس کے کردار راجا بھرتری ہری تھے اور ان کی رانی، جو ایک نہایت ہی حسین عورت تھی۔ بھرتری اُس کے گدازجسم کی طرف دیکھتے اور سوچتے:کیا ایسا وقت آئے گا جب اُس کے چاند سے چہرے پر جھریاں چلی آئیں گی؟ چنانچہ کسی ولی نے انھیں ایک سیب دیا اور کہا: ’اِس کے کھانے سے حسن لازوال ہو جاتا ہے، اور انسان لافانی۔‘ بھرتری ہری نے رانی کے حسن کو دوام دینے کے لیے اپنے آپ پر اسے ترجیح دی۔ وہ اس حسینہ کو ہمیشہ عالمِ تاب میں دیکھنا چاہتا تھا۔ لیکن رانی ایک نوجوان دھوبی سے پیار کرتی تھی اور ہمیشہ اسے تندرست اور جوان دیکھنا چاہتی تھی۔ چنانچہ اُس نے وہ سیب دھوبی کو دے دیا۔ جو ایک طوائف پر عاشق تھا اور جو اُس کی زندگی میں مسرت کے لمحے لاتی تھی۔ طوائف نے یہ سمجھ کر کے اُس کا جسم گناہ کی کان ہے۔ وہ سیب بھرتری ہری کی نذر کردیا کیونکہ وہ حاکمِ وقت تھا اور اُس کے دائم قائم رہنے سے لاکھوں، کروڑوں لوگوں کا بھلا اور طوائف کے اپنے گناہوں کا کفارہ ہو سکتا تھا۔۔۔۔۔ بھرتری ہری نے دنیا ترک کردی۔‘‘ اِس کہانی کو بیان کرنے کے بعد بیدی سوال کرتے ہیں :’اس کہانی میں کیا کہا گیا ہے؟ اور چند باتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن میں کہانی کی معنویت پوشیدہ ہونے کا امکان ہے۔ میرا ذہن سوال کرتا ہے کہ ’ایک چادر میلی سی‘ میں کیا کہا گیا ہے؟ 
اور ہر بار میں اس نتیجے پر پہنچا کہ بیدی نے محض کہانی بیان کی ہے اور اس کہانی کا بیان بیدی کے اسلوب کی وجہ سے بے پناہ حسین ہے۔ بیدی کا اسلو ب کیسا ہے اس پر گوپی چند نارنگ اور وارث علوی اظہار خیال کر چکے ہیں۔ اس ناول میں سارا کمال بیدی کے اسلوبِ نگارش کے سبب ہے ورنہ ناول کی کہانی کسی فلاپ فلم کی اسکرپٹ سے آگے نہیں۔ حالانکہ بیدی نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ اس ناول میں انھوں نے وہ زندگی پیش کی ہے جسے انھوں نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ان کا بیان ہے ’یہ کہانی میرے اپنے گانو کی ہے اور اس کے بہت سے کردار حقیقی ہیں۔(علی گڑھ میں خطاب: 512 کلیات راجندر سنگھ بیدی ، جلد دوم ، مرتب وارث علوی ) حالانکہ علی گڑھ میں خطاب میں بید ی نے ہیمنگ وے کے بعض ناولو ں کا ذکر کیا تھا اور کہا تھاکہ ’’میں یہ چاہتا تھا کہ اردو میں اس طرح کا ناول لکھوں جو ایک وحدت بن سکے اور زندگی سے اس کا رشتہ حقیقی اور گہرا ہو۔۔۔۔’ایک چادر میلی سی‘ میں ، میں نے کوشش کی ہے۔‘‘ بیدی نے جس کوشش کی بات کی ہے کیا وہ اُس میں کامیاب ہوئے؟ جبکہ انہی برسوں One Hundred Years of Solitude (Gabriel Garcia Markquez), A Clockwork Orane (Anthony Burgess), Catch-22 (Joseph Heller), The French Lieutenant's Woman( John Fowles), Cancer Ward (Aleksandr Solzhenitsyn), Herzog (Saul Bellow), The Golden Notebook (Doris Lessing), The Joke (Milan Kundera), and A House of Mr Biswas( V S Naipaul) کے علاوہ سیکڑوں اہم ناول ادب کی دنیا میں سامنے آچکے تھے۔
’ایک چادر میلی سی ‘ کے بارے میں جو فلسفیانہ رائے وارث علوی کی ہے یا متن کی جس طرح تشریح شمس الحق عثمانی نے کی ہے اس سے پرے ، خود بیدی نے ناول کی کہانی کے بارے میں ایک مضمون ’گیتا‘ میں لکھا ہے : ’ایک چادر میلی سی‘ کی کہانی ہماری مروجہ فلمی کہانیوں سے یکسر الگ تھی۔ چھوٹتے ہی اس کی نائیکہ رانو چار بچوں کی ماں دکھائی دیتی تھی۔ پھر اپنی بدکرداری کے کارن اس کا پتی قتل ہو جاتا ہے اور رانو کو اپنے دیور پر چادر ڈالنا، اس کے ساتھ شادی کرنا پڑتی تھی ، جو عمر میں اس سے گیارہ سال چھوٹا تھا اور جسے اس نے ایک بچے کی طرح پالا تھا۔ گیتا کو رانو کے کردار میں ایک بڑی رینج دکھائی دی اور وہ اس پر مرمٹی۔رانو اور گیتامیں کیا ممثلت تھی؟ غالباً یہی کہ دونوں نے دکھ دیکھا تھا۔ اپنی فلسفیانہ تحلیل میں رانو دیوی تھی کیونکہ اس نے زندگی کو ایک بھر پور طریقے سے جیا۔ اس نے مارکھائی، مار۔ اپنے پیٹ ، اپنی بیٹی، اپنی محبت کے لیے ،اس نے میٹھے مالٹے، شراب کی بوتل توڑی اور پھر اپنے دیور کو رام کرنے کے لیے اسے پلائی بھی۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود دیور نے اس کے سارے پاپ چھما کردے۔یہی نہیں وہ خود دیوی ہوگئی۔۔۔۔دَیا اور کرونا کے پرساد بانٹنے لگی۔۔۔رانو کے کردار نے گیتا کے دل میں ایک عجیب سی گھلاوٹ پیدا کر دی تھی اور وہ جان گئی تھی کہ زندگی کے بھلے برے کے آخر میں موکش ہے۔(گیتا: 486 کلیات راجندر سنگھ بیدی جلد دوم)
مرد اور عورت کی زندگی کی اس کہانی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ عورت ایثارِ نفسی اور گھر گرہستی کے لیے ہر طرح کی قربانی دیتی ہے اور مرد کی سفاکی کے برعکس ممتا کی مورت بن جاتی ہے۔اگر ناول کا یہ مرکزی تھیم ہے تو اس میں کونسی نئی بات یا جدت یا انسانی زندگی کی پے چیدگی کی کونسی تہہ داری ہے۔ہندستان کا وہ کونسا گانو یا شہر ہے جہاں عورت قربانی نہیں دیتی، شوہر کا مار نہیں کھاتی اور روزانہ اپنی ذلت میں اضافہ نہیں کرتی۔ ہم یہ سوال کیوں نہیں کر تے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جس کے سبب عورت ایک ایسی مخلوق میں بدل گئی ہے جو ذلت، اذیت اور کسم پرسی میں خوش رہتی ہے ۔ ذلت و رسوائی کی ماری عورت کو بیدی کیوں دیوی تصور کرتے ہیں؟ 
ہمارے سماج میں عورت کا وجود اِس سماج کے زوال کا اشاریہ ہے جہاں اُس کی شناخت دراصل معدوم ہو چکی ہے۔ رانو کے کردار میں یقیناًبڑی رینج ہے لیکن بیدی نے رانو کو ایک مرد کی نظر سے زیادہ درشایا ہے ۔ یہ سفاک حقیقت نگاری نہیں ہے بلکہ پیٹری آر کی patriarchy کی عینک سے د یکھی گئی ایک تصویر ہے جس میں ذلت کی ماری عورت کو ہیروئک بنا کر معاشرے کے سفاکی کو کلین چٹ دی جاتی ہے۔ عورت کے وجود کی تذلیل کو مذہبی اور اساطیر ی رنگوں سے سجایا گیا جس کا منشا ،رانو کی اذیت اور المناکی کو قابلِ برداشت بنانا ہے۔مذہبی ، سماجی اور معاشرتی منظرنامہ عورت کی شناخت کے بحران کو اجا گر کرنے کے بجائے شناخت اور ذات کی موت کو پرکشش بنانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے جس کی جڑیں اساطیر اور تہذیبی پس منظر میں نہیں بلکہ پیٹری آرکی ((Patriarchyمیں دفن ہیں۔ یہ کام بیدی نے شعور کی سطح پر نہیں کیا ہے بلکہ بیدی کے مرد اورعورت کے تصور کا غیر شعوری اظہار ہے۔ بیدی کا تصورِ جنس ،تصورِ عورت سے مختلف ہے اور ابھی تنقید نے ان دونوں میں امتیاز نہیں کیا ہے ۔ اگر بیدی اس بات سے واقف نہیں تھے کہ بھارت خواتین دشمن معاشرہ ہے تو بیدی کا یہ ناول اس بات کی توثیق کرتا ہے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مردانہ سوچ، عورت دشمن معاشرے کی خالق ہے۔ بیدی معاشرے کے فرد اور مرد ہونے کے ناتے عورت کو اُس کی مجروح اور المناک صورت میں دیوی کادرجہ عطا کرتے ہیں۔یہ بتانا غیر ضروری نہیں کہ حالیہ دنوں پارلیمان میں پیش کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق 2012-14 کے دوران 24700 عورتوں کا قتل کیا گیا ہے۔ دیوی کاسمان دیے بنا یہ قتل ممکن نہیں تھا۔ رانو کے صبر کے بارے میں وارث علوی نے ایک متنازعہ بات لکھی ہے اور اِس کا سبب ان کی بیدی کی پرستش ہے۔ وہ لکھتے ہیں:’صبر شخصیت کے ارتباط کو قائم رکھنے کا مظلوم کا سب سے طاقتور حربہ ہے۔ صبر کی طاقت ہی رانو کو غم پسند اور اذیت پسند بننے نہی دیتی، جو کمزور شخصیت کے بیمار ذہنی رویے ہیں۔ صبر طاقتور ذہن کا وصف ہے جو سوچتا ہے کہ یہ دن بھی گذر ہی جائیں گے۔‘ ( ایک چادر میلی سی : ۴۴۱ ۔ راجندر سنگھ بیدی ایک مطالعہ)۔ اسی مضمون میں وارث علوی نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایثار نفسی میں وہ (رانو) دیوی ہے لیکن مرد کو دیوی بن کر نہیں سیج کی ویشیا بن کر ہی رام کیا جاسکتا ہے۔ اور رانو ہی کرتی ہے۔ (ایضاً) 
***
بیدی پنجاب کی زندگی کو اس ناول میں قید کرنا چاہتے تھے ۔ اس آرزو کے ساتھ علاقائیت کی ایک متھ بھی ان کے دل میں بسی ہوئی تھی جس کا اظہار انھوں نے کچھ یوں کیا ہے :’’پنجابی دنیا کا ماتم نہیں کرنے آیا اور نہ فلسفہ دانی اس کا نصب العین ہے۔ وہ جو اندر سے ہے وہ ہی باہر سے ۔۔اس کے جیون کا رہسیہ ہی یہ ہے کہ کوئی رہسیہ نہیں۔ ۔۔۔پنجاب اور پنجابی کبھی ناش نہیں ہو سکتے۔ نہ معلوم انھوں نے کون سی امر کتھا سنی ہے جس میں وہ اُونگھ بھی گئے اور پا بھی گئے۔ پی بھی گئے اور چھلکا بھی گئے۔ زندگی کے رونے دھونے سے ان کی تپسیا پوری نہیں ہوتی۔ ۔۔ہاں۔۔ہنسنے کھیلنے، کھانے اور پہننے ہی میں ان کا موکش ہے۔ ‘‘ (پیش لفظ ۔۔ایک چادر میلی سی۔۵ فروری ۱۹۶۴ ) بیدی نے ناول کے پلاٹ کی تعمیر اسی خیال پر رکھی ہے اور اسی لیے تشدد، قتل، عصمت دری، جذبۂ جنس کی سرمستی اور توہمات کے پس منظر میں زندگی کا سارا رس کس نچوڑکر موکش حاصل کرنے کا ایک سفر جاری ہے۔ بید ی نے پنجاب کی زندگی کا عکس پیش کرنے میں بلاشبہ کامیابی حاصل کی ہے ۔ دوسری طرف پنجاب کی زندگی کی رنگینی کے ساتھ معاشرتی سطح پر پنجابی افراد کے بارے میں ایک رہسہ بھی سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کی زندگی کا کوئی رہسیہ نہیں ہے۔ 
ناول میں ایک قابلِ ذکر خوبی وہ بھی ہے جس کی طرف وارث علوی نے اشارہ کیا تھا کہ’ یہ ناول عورت کی بپتا کا افسانہ نہیں بلکہ نامساعد حالات اور حیات کش قوتوں کے خلاف ایک عورت کی جدوجہد کا افسانہ ہے ‘،لیکن یہ جدوجہد محض رانو کی جدوجہد کے سبب قابل مطالعہ نہیں ہے بلکہ بیدی کے اسلو ب کا جادو ہے کہ ایک معمولی فلمی پلاٹ کو انھوں نے ایک قابلِ ذکر ناول میں بدل دیا۔ یہی بڑے لکھنے والے کی پہچان ہے۔
بیدی کہیں نہ کہیں ہمینگ وے کی ناول نگاری کو پسند کرتے تھے ۔انھوں نے لکھا ہے ’خودکشی سے چند ہی مہینے پہلے ہیمنگ وے نے کہا تھا کہ ’’میں نے اپنی تحریروں میں طالسٹائی اور بالزاک، موپاساں اور چیخوف کو سمو لیا ہے‘، اور یہ امر واقع ہے کہ ان کی کہانیوں میں ہمیں ان سب استادوں کا ایک خوب صورت سا امتزاج نظرآتا ہے۔‘‘ (مختصر افسانہ ، صفحہ۵۱۷) جبکہ’ ایک چادر میلی سی‘ میں ہمیں کسی استا د کا کوئی رنگ نہیں ملتا ۔یہ ناول اپنی معراج میں صرف اور صرف بیدی کے اسلوب سے مزین ہے۔ناول کی ادبی قدروقیمت بھی اِسی ارفع اسلوب میں پوشیدہ ہے 

No comments:

Post a Comment