علی اکبر ناطق کا تیسرا شعری مجموعہ(سر منڈل کا راجہ) جلدآپ کے ہاتھوں میں ہوگا اس سے پہلے ْبے یقین بستوں میں ٌاور ْیاقوت کے
ورقٗمنطر عام پر آچکے ہیں جسے اردوداں طبقے نے بہت پسند کیا یہ ایسے نوجوان لکھنے والے ہیں جنہیں بزرگ بھی اتنا ہی پسند کرتے ہیں جتنانئے لکھنےاور پڑھنے والے یہ نظمیں ان کے تیسرے شعری مجموعہ سے پیش کی جارہی ہیں جو چند دنوں میں شائع ہوجائے گا۔اس شعری کتاب پر شمس الرحمن فاروقی اور زیف سید نے اپنی رائے کا اظہار بھی کیا ہے جسے ہم ناطق صاحب کے شکریے کے ساتھ یہاں لگا رہے ہیں
( انجمن ترقی اردو ہند،اردو گھرنئی دلی)
علی اکبر ناطق کے بارے میں اب یہ حکم لگانا مشکل ہو گیا ہے کہ جدید شعر میں ان کی اگلی منزل آگے کہاں تک جائے گی کہ ہر بار وہ پہلے سے زیادہ چونکاتے ہیں ۔ اُن کے پہلے کلام میں تازگی اور میرا جی کی سی قوت اور داخلیت تھی۔ روایت اور تاریخ کا شعور بھی حیرت زدہ کرنے والا تھا۔ اب کے کلام میں لہجہ جدید نظم کے کلاسک شعرا سے بالکل الگ بھی ہے، نیا بھی ہے اور جوشِ درد سے بھی بھرا ہواہے اور صرف اور صرف اُن کا اپنا ہے ،اِس سے پہلے ایسی روایت موجود نہیں ہے ۔ محبت کی باتیں بہت ہیں لیکن اُن میں زیاں اور ضرر کا احساس بھی زیادہ ہے۔ لہجہ پیغمبرانہ ہے ۔ نظم کا بہاؤ اور آہنگ کی روانی ایسی ہے کہ حیرت پر حیرت ہوتی ہے، خاص کر جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس وقت ان کے کلام پر پنجابی کا اثر عام سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود یہ پیوند بہت ہی اچھے لگتے ہیں۔
اِس مجموعے کی نظمیں ہماری جدید شاعری کے لئے ایک مطلق نئی چنوتی لے کر آئی ہیں ۔ اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے۔
الٰہ آباد
دسمبر ۶۱۰۲ شمس الرحمٰن فاروقی
علی اکبر ناطق کی لگ بھگ ہر نظم سُننے کے بعد جب بھی یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ شاید اِس نے اپنے اظہار کی معراج حاصل کر لی ہے اور اِس سے آگے بڑھنا نا ممکن ہو گا ،وہ اگلی ہی نظم میں ایک نیا راستہ اختیارکر کے نئے سفر پر گامزن ہو جاتا ہے ۔ اِس کی مثال کے لیے: یاقوت کے ورق : میں شامل سفیرِ لیلیٰ دیکھیے جو اپنی اُٹھان کے لحاظ سے زمانہء قبل از اسلام کے سبع معلقات کی یاد دلاتی ہے اوراِس کے بعد زیرِ نظر مجموعے میں دیسی رنگ ڈھنگ کی نظمیں دیکھیں ۔ یقین کرنا مشکل ہو گا کہ یہ ایک ہی شاعر کی تخلیقات ہیں ۔اِس سے پہلے بھی کئی شاعروں نے ؛چناب رنگ : پر مبنی شاعری کی ہے لیکن وہ بڑی حد تک اُردو میں پنجابی الفاظ کھپانے تک محدود رہے ہیں ۔ اُن کے مقابلے پر علی اکبر ناطق کی ،،نفیریاں بجانے والیاں ،،ناگ ، نیلا پنکھو ،لقے کبوتر پالنے والے ،شریر بالیو ، مرے چاند ، میں چانن کے دیس کا پنکھو ،وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جن کی صرف لفظیات ہی مقامی نہیں بلکہ ناطق نے اُن کا اُسلوب ،ساخت ،روایات حتیٰ کہ متھالوجی تک پنجابی رکھی ہے ،جس سے اِن نظموں میں آپ کو پنجاب کی مٹی کی سوندھی خوشبو اپنے تمام رنگوں کے ساتھ محسوس ہونے لگتی ہے اور دور کہیں باجے کے ساتھ بھنگڑے اور ڈھول کی ہلکی تھاپ سنائی دینے لگتی ہے جو قریب آنے پر بھی بھلی لگتی ہے ۔یہ پنجاب رنگ پہلے ناطق کے افسانوں میں ملتا تھا لیکن شاعری کا خمیر کسی دوسری دنیا سے اُٹھاتا تھا مگر موجودہ نظموں میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اپنی تخلیقی نثر اور شاعری کو ایک دھارے پر لانے میں کامیاب ہو گیا ہے ۔ تاہم نثر کے برعکس اِ س کی شاعری میں روحانی اور مابعد الطبیعاتی پہلوبہت نمایاں ہے ۔ناطق کی نظم کا بیج مٹی میں ضرور ہوتا ہے لیکن نظم اُوپر اور اُوپر اُٹھتے اُٹھتے جاودانی آسمان کی وسعتوں سے ہم آہنگ ہو کر آفاقی اسطورہ بن جاتی ہے جسے آپ غیر فانی اساطیر کے پہلو میں دیکھ سکتے ہیں ۔مجھے ایک اعزاز رہا ہے کہ میں پچھلے پانچ برس سے علی اکبر ناطق کی تقریباً ہر نئی نظم کا اولین سامع رہا ہوں ،اِس کے باوجود کم ہی ایسا ہوا ہے کہ اُس کی نئی کاوش سُنتے وقت دل میں یہ سوال پیدا نہ ہو کہ اِس شخص کی تخلیقی صلاحیتوں کی کوئی تھاہ ہے بھی کہ نہیں ۔
زیف سید
اسلام آباد
۲۵جنوری
اِس مجموعے کی نظمیں ہماری جدید شاعری کے لئے ایک مطلق نئی چنوتی لے کر آئی ہیں ۔ اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے۔
الٰہ آباد
دسمبر ۶۱۰۲ شمس الرحمٰن فاروقی
علی اکبر ناطق کی لگ بھگ ہر نظم سُننے کے بعد جب بھی یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ شاید اِس نے اپنے اظہار کی معراج حاصل کر لی ہے اور اِس سے آگے بڑھنا نا ممکن ہو گا ،وہ اگلی ہی نظم میں ایک نیا راستہ اختیارکر کے نئے سفر پر گامزن ہو جاتا ہے ۔ اِس کی مثال کے لیے: یاقوت کے ورق : میں شامل سفیرِ لیلیٰ دیکھیے جو اپنی اُٹھان کے لحاظ سے زمانہء قبل از اسلام کے سبع معلقات کی یاد دلاتی ہے اوراِس کے بعد زیرِ نظر مجموعے میں دیسی رنگ ڈھنگ کی نظمیں دیکھیں ۔ یقین کرنا مشکل ہو گا کہ یہ ایک ہی شاعر کی تخلیقات ہیں ۔اِس سے پہلے بھی کئی شاعروں نے ؛چناب رنگ : پر مبنی شاعری کی ہے لیکن وہ بڑی حد تک اُردو میں پنجابی الفاظ کھپانے تک محدود رہے ہیں ۔ اُن کے مقابلے پر علی اکبر ناطق کی ،،نفیریاں بجانے والیاں ،،ناگ ، نیلا پنکھو ،لقے کبوتر پالنے والے ،شریر بالیو ، مرے چاند ، میں چانن کے دیس کا پنکھو ،وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جن کی صرف لفظیات ہی مقامی نہیں بلکہ ناطق نے اُن کا اُسلوب ،ساخت ،روایات حتیٰ کہ متھالوجی تک پنجابی رکھی ہے ،جس سے اِن نظموں میں آپ کو پنجاب کی مٹی کی سوندھی خوشبو اپنے تمام رنگوں کے ساتھ محسوس ہونے لگتی ہے اور دور کہیں باجے کے ساتھ بھنگڑے اور ڈھول کی ہلکی تھاپ سنائی دینے لگتی ہے جو قریب آنے پر بھی بھلی لگتی ہے ۔یہ پنجاب رنگ پہلے ناطق کے افسانوں میں ملتا تھا لیکن شاعری کا خمیر کسی دوسری دنیا سے اُٹھاتا تھا مگر موجودہ نظموں میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اپنی تخلیقی نثر اور شاعری کو ایک دھارے پر لانے میں کامیاب ہو گیا ہے ۔ تاہم نثر کے برعکس اِ س کی شاعری میں روحانی اور مابعد الطبیعاتی پہلوبہت نمایاں ہے ۔ناطق کی نظم کا بیج مٹی میں ضرور ہوتا ہے لیکن نظم اُوپر اور اُوپر اُٹھتے اُٹھتے جاودانی آسمان کی وسعتوں سے ہم آہنگ ہو کر آفاقی اسطورہ بن جاتی ہے جسے آپ غیر فانی اساطیر کے پہلو میں دیکھ سکتے ہیں ۔مجھے ایک اعزاز رہا ہے کہ میں پچھلے پانچ برس سے علی اکبر ناطق کی تقریباً ہر نئی نظم کا اولین سامع رہا ہوں ،اِس کے باوجود کم ہی ایسا ہوا ہے کہ اُس کی نئی کاوش سُنتے وقت دل میں یہ سوال پیدا نہ ہو کہ اِس شخص کی تخلیقی صلاحیتوں کی کوئی تھاہ ہے بھی کہ نہیں ۔
زیف سید
اسلام آباد
۲۵جنوری
سُرمنڈل کا راجا
پھیلے دِنوں کی دیواروں پر بُن کر رات کے جالے
ٹھنڈے دلوں کے گاڑھے لہو پر پڑ ھ کر منتر کالے
مَیں جادو کے دیس چلا ہوں ، جس کے پار اُجالے
نیل سرا میں کھو جائیں گے مجھ کو ڈھونڈنے والے
چھُونے والے، پاس آئے تو پاس نہ آنے دوں گا
سحر نگر میں پری تماشا ،پریوں پاس رہوں گا
آنکھ ہوا کی بھر آئے گی ،دُھندلائیں گے تارے
راہِ سفر میں جاگ اُٹھیں گے ٹھہری نیند کے مارے
تیزاُڑ ے گی جیت ہماری اُونگھنے والے ہارے
چھن چھن چھاجا چھنکائیں گے چُپ بیٹھے ہنکارے
پورب پچھم باجنے والا ایک خدا کا باجا
نام ہمارے بجوائے گا سُر منڈل کا راجا
مُلک سراب کی جادو نگری اور جادو کا ٹیلا
جوں جوں پربت پھیلتا جائے توں توں ماتھا گیلا
آخری برفوں کی منڈلی پر پھول ازل کا نیلا
آب حیات رگوں میں جاری لیکن چہرہ پیلا
جادو گرنی مجھے پکارے ،مَیں پنکھو شرمیلا
آخر کھینچ لیا منترنے ،ایک چلا نہ حی
جادو گروں سے سنو فسانہ
جادو گروں سے سنو فسانہ، بات کریں گے چھُو منتر
چھو منتر سے آگ بنا کر دیواروں پر ماریں گے
دیواروں پر رنگ بنیں گے آگ کی تیزشبیہوں کے
رنگ شریرنفس کے جلوے آنکھوں پر لہرائیں گے
ایک گلابی شیشے میں پھر قاف پری دکھلائیں گے
چھو منتر سے تار بُنیں گے اور ہوا پر پھینکیں گے
قید کریں گے وقتِ قضا کو تار کی پتلی جالی میں
جالی بند کریں گے دل میں ،صحنِ خدا میں بھیجیں گے
اور پڑھیں گے چھو منتر کا بول دوبارہ
دِ ل پھر وقت اُچھالے گا اورزرد شفق برسائے گا
تیرِ اُفق سے لال پرندہ پربت پر مروائے گا
خون ملے گاچہرے پر اور ماتمی صف بچھوائے گا
کالے دھاگے گھیر بنا کر منتر پڑھ پھونکائے گا
جادو گروں کے افسانے کو بستی چوک پھرائے گا
جادو گروں سے سنو فسانہ
مرے کچی رہ کے مسافرا
مرے کچی رِہ کے مسافرا
ترے دست و پا کو سلامتی
ترے جان و دل کو امان ہو
تری چرمِ نرم کی چھاگلیں ہرے پانیوں سے بھری رہیں
ترے راستوں کا غباراَوس کی بارشوں سے جما رہے
ترے اُونٹ کے کھرے پیتلوں کی وہ گھنٹیاں
جنہیں گیت گانے سے کام ہے
جنھیں ہر قدم پہ سماعتوں سے کلام ہے
وہ صدائے نغمہ سے پُر رہیں
سرِ شام زردِ غروب میں چھُپے پنچھیوں کے نظارا بیں
بھرے بادلوں میں لہو پھِری،گھنی سُرخیوں کے مزاج داں
شفق آئنوں کی حجابیوں کے طلسم کھولتے سامری
تُو سرائے اَبر عبورکر پرِ نیلگوں سے خراج لے
تُجھے منزلوں کی ہوا لگے
تجھے پر بتوں کا خدا ملے
وہ خدا کہ جس کا نزول ہے بُتِ جاں کے حر ف و کلام میں
وہ کلام ضامنِ رہروی جو سُنائے نغمہء سرمدی
جو بجائے باجہء دلبری
مرے کچی رہ کے مسافرا
تری خورجیں میں پڑی ہوئی ہیں حیاتِ سُرخ کی نیکیاں
ترے بازؤوں سے بندھی ہوئی ہیں ستونِ عرش کی ڈوریاں
رگِ پاکے زخم سنوارتی ہیں جہانِ قاف کی باندیاں
کسی بے نشان سرائے پر تجھے عیب وقفہ قیام کا
مرے کچی رہ کے مسافرا
مرے چاند پانی میں جا گرے
مرے چاند پانی میں
سُنو ! زندہ گاؤں کی بالیو
مرے چاند پانی میں جاگرے
چلی تہہ میں لَو کی نفیرنی
لگی کرنیں روح کی ڈولنے
اِنھیں ڈوبنے سے بچائے کون
اِنھیں ڈولنے سے ہٹاے کون
دُھلی دھوپ دیس کی دیویو
کلی چھوئی موئی ،کنواریو
مرا ہاتھ ہلکے سنبھالیو
مَیں اُتر نے والا ہوں تال میں
کھَرے آسماں کے شوال میں
نِرے نیل بن کے زوال میں
مرے چاند پانی میں جا گرے
مَیں اُٹھا لوں اُن کو شتاب سے
ٹھرے پانیوں کی کتاب سے
ہر ے گاؤں والی ندانیو
کھلے جوبنے کی سیانیو
یہیں پاس رکھ دویہ گاگریں
بھری چاندنی کی یہ چھاگلیں
ذرا ہاتھ پہلومیں ڈالیو
مجھے ہولے ہولے سنبھالیو
اَری گھگرے اپنے بچا ئے کے
کڑے جھانجروں کے بجائے کے
ہری خوشبوؤں سے گزاریوں
گھنی روشنی میں اُتاریو
کرو حوصلے سے جدا مجھے
مَیں اُٹھا لوں اُن کو خدا کرے
مرے چاند پانی میں جا گرے
نفیریاں بجانے والیاں
ہمارے گاؤں آ گئیں نفیریاں بجانے والیاں
نفیریاں بجانے والیوں کے دائیں بائیں رقص میں بشارتیں
تریل کی شراب پی کے ،سانجرے کی سُرخیوں کے ملک سے
سوار ہوکے سورجوں کی روشنی پہ آ گئیں نفیریاں بجانے والیاں
ہمارے گاؤں کے خراس والے چوک میں
دو بیریوں کی لاگروں کے سبز سائے
سوندھی سوندھی گاچنی سے لیپی آسنوں پہ آج پھر
چڑھیں ہیں صندلی کنواریاں،نفیریاں بجانے والیاں
نفیریاں بجانے والیوں کے کان کی لوَیں گلاب کی
گلابوں کے کنارے گھومتی ہیں گول گول سی بھبھیریاں
نفیریاں بجانے والیوں کی کُرتیاں ہلال کی ،غرارے نور کے
غراروں کے حصار میں کھنکتی چار چارجھانجریں
سفیدجھانجروں کے بیچ کانچ اور پارے کی شریر پنڈلیاں
ہمارے گاؤں کے ہیں سادہ سادہ کاسنی سے گھر
گھروں کے زندہ آنگنوں میں آگیا نفیریوں کامیٹھا میٹھا شور
بجا رہی ہیں گاؤں کی جوان بالیاں ،نفیریوں کے سنگ تالیاں
ہمارے گاؤں آ گئیں نفیریاں بجانے والیاں
تیری بیلیں تیرے پھول
اک چرواہے نے کاٹی ہیں تیری بیلیں تیرے پھول
تُونے بڑھ کر چوم لی اُس کے دو قدموں کی دُھول
لمبے دنوں کی پگڈنڈی پر چرواہے کی جھول
پور پور میں اُس کے چبھی ہے بانک پنے کی سُول
سُول قبیلے والے اُس کے ، کیکر اور ببوُل
دُھول گگن کا رہنے والا، گلے میں غم کے ہار
دُھوپ کے سائے میں بُنتاہے دن کے روشن تار
شام تھکے تو آجاتا ہے پورب دیس کے پار
روغنی چاندوں کی فصلوں پر چرواہے کی آنکھیں
اورآنکھوں کی زرد شفق میں یاقوتوں کے ڈورے
کون پچھانے چرواہے کی سانس میں چلتی آگ
آگ کی لپکیں رات سمے میں صندل تن کے بھاگ
اُس پر قاتل چرواہے کی بانسریا کے راگ
جاگ نصیبوں ماری سُندری ،میٹھی رُت میں جاگ
سورج تیرے شیشہ بدن پر بیٹھا بن کر ناگ
Aakhir kheinch Lia Munter NY Aik chla Na Heela
ReplyDeleteKhuob...own diction self Style of Expressions! Khush rahien