Saturday, January 28, 2017

عرفان صدیقی حق فتح یاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا



زمرد مغل
عرفان صدیقی
مسند خا ک پہ بیٹھا ہو ں برابر اپنے

عرفان صدیقی اپنے وقت کے ممتاز شاعروں میں سے تھے۔ ایسے شاعر جو زمان و مکاں کی حدود و قیود سے ماورا اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔عرفان صدیقی کی شاعری کی چمک ان کی وفات کے بعد بھی کم نہیں پڑی بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس کی چمک میں حیرت انگیز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے ۔ مگر اس سب کے باوجود عرفان صدیقی پر بہت کم لکھا گیا اور اگر یوں کہا جائے کہ لکھا ہی نہیں گیا تو بھی بے جا نہ ہوگا۔
عرفان صدیقی کے ممتاز ترین ہمعصروں نے عرفان صدیقی پر سیر حاصل گفتگو نہیں کی۔ ایسا کیونکر ہوا؟ کیا سارے ادب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔جو عرفان کی شاعری پر ہمیں ڈھنگ کا ایک مضمون بھی نہیں ملتا۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ جب جب کسی جینوئن قلمکار کو یا فنکار کو نظر انداز کیا گیا ہے تو اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والوں نے اس ادبی گھوٹالے کو منظر عام پر لانے میں کبھی بھی پس و پیش سے کام نہیں لیا۔ مگر عرفان صدیقی کے لیے سرے سے کسی ایسی صدائے احتجاج سے بھی ادب کا میدان خالی دکھائی دیتا ہے۔ ایسا کیوں؟ کیا عرفان کے چاہنے والوں سے میدان خالی تھا؟ ایسا بھی نہیں ہے بلکہ عرفان صدیقی کے چاہنے والے بقیہ شاعروں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی تھے۔ تو کیا عرفان کے ساتھ تعصب کو روا رکھا گیا؟ ایسا بھی نہیں ہے عرفان صدیقی کے تعلق سے وہ تحفظات دیکھنے کو نہیں ملتے جو ادبی معاشرے کا خاصہ بن چکے ہیں۔ تو کیا عرفان صدیقی کی شاعری اتنی مشکل ہے کہ کوئی اس پر کچھ لکھنے کی ہمت نہیں کرپایا؟ ایسا بھی نہیں ہے کیوں کہ اردو ادب میں فی زمانہ ایسے لوگ موجود ہیں جو سکی بھی مشکل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تو پھر ایسا کیوں ہوا کہ عرفان صدیقی پر لکھنے والوں نے یا تو بہت کم لکھا یا پھر سرے سے کچھ لکھا ہی نہیں؟میری مراد قابل ذکر لکھنے والوں سے ہے کیوں کہ کسی بھی قابل ذکر نقاد نے عرفان صدیقی پر قابل ذکر مضمون نہیں لکھا۔ اس کا جواب خود عرفان صدیقی کی شاعری میں پوشیدہ ہے ۔ عرفان پر لکھنا بہت مشکل اس لیے بھی ہے کیوں کہ ان کی شاعری اپنے قاری کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ لکھنے والا عرفان پر مضمون لکھنے کے ارادے سے قلم اٹھائے گا مگر چند جملے نذر قلم کرنے کے بعد ہی عرفان کا کوئی شعر اس پر آسیب کی طرح ایسا سوار ہوگا کہ اسے دنیا و مافیہا سے بیگانہ کردے گا۔اس سحر سے باہر آنے میں ہفتوں اور مہینوں بھی لگ سکتے ہیں۔
اب عرفان صدیقی کی شاعری کی طرف چلتے ہیں ۔ عرفان صدیقی کی غزلیہ شاعری میں جو بات نمایاں اہمیت کی حامل ہے وہ ہے ان کا روایتی افراط وتفریط میں راہ اعتدال کو بحال کرنا۔ اردو کی چعری روایت میں کچھ تصورات ایسے ہیں جن کے تعلق سے شعرا یا تو افراط کا شکار رہے ہیں یا پھر رد عمل کے طور پر تفریط کا شکار ہوگئے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ بڑے اور عظیم شعرا کا دامن بھی اس الودگی سے بچتا دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن یہ صرف عرفان صدیقی کا طرۂ امتیاز ہے کہ انھوں نے ان تصورات کو جن کے تعلق سے شعرا افراط و تفریط کا شکار تھے ان تصورات کو راہ اعتدال پر چلنا سکھایا۔ مثال کے طور پر تصورِ عشق کو ہی لے لیجئے جہاں ایک طرف محبوب کے وصل کے لیے یا صرف ایک جھلک ہی پانے کے لیے شعرا نے گھر بار کو تیاگ گئے ہیں۔ حکومتوں اور سلطبتوں کو ٹھوکر مارنے میں حتیٰ کہ دونوں جہان کی نعمتوں پر یار کی پل بھر کی ملاقات کو ترجیح دینے میں ذرہ بھر تردد سے کام نہیں لیا وہیں اس کا رد عمل بھی شدیدی دکھائی دیتا ہے۔ جب غالب جیسا عظیم ترین شاعر یہ کہتا دکھائی دیتا ہے :
خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار
کیا پوجتا ہوں اس بت بیداد گر کو میں
غالب نے جہاں ہزار سالہ فرسودگی کو پائے حقارت سے ٹھکرانے کا فریضہ انجام دیا ہے وہیں وہ عشق کے مقدس جذبے کو خواہش کے لفظ کے استعمال کے ذریعے جنسیت تک لیے آئے ہیں۔ دنیا بھر میں عشق کے تعلق سے جن فرسودہ نظریات کا دور دورہ رہا ہے یا آج بھی ہے جہاں وہ افراط کی مثال ہے وہیں پہ غالب کا شعر اس کے رد عمل کے طور پر تصور عشق کی ایسی شبیہ پیش کرتا ہے جو تفریط کا شکار ہے ۔ بعد کے بڑے شعرا نے بھی لگ بھگ غالب کی روش کو اپنانے میں ہی عافیت سمجھی اور اسی رفریط زدہ تصور عشق کو فروغ دینے میں مصروف رہے ۔ مگر عرفان صدیقی نے افراط اور تفریط کے اس معرکہ میں تصور عشق کا ایک معتدل تصور پیش کیا جو ایک طرف اردو ادب کو افراط و تفریط سے پاک صاف کرتا ہے تو دوسری طرف عرفان صدیقی کو بھی اپنے عہد کے ممتاز ترین شعرا کی صف میں لاکر کھڑا کردیتا ہے ۔ 
ایسا نہیں ہے کہ عرفان صدیقی کے یہاں عشق کا ایک ہی رنگ ہے ایک ہی روپ ہے ۔ بلکہ عرفان صدیقی کی شاعری میں عشق ذات اور کائنات کے حوالے سے بھی اپنا تعارف کراتا ہے اور عام تجربات کی کسوٹی پر بھی کھرا اترتا دکھائی دیتا ہے مگر زندگی کی اس دھوپ چھاؤں میں عرفان کے تصور عشق کے بھی کئی رنگ ہیں اور کئی روپ مگر سب رنگ جس مجموعی تصور کی تعمیر کرتے ہیں وہ حد درجہ جاذب نظر ہونے کے باوجود بھی کائناتی بھول بھلیوں کا حصہ نہیں بنتی بلکہ زندگی اور وجود کو نئے جہان معنی سے متعارف کراتی ہے۔ 
عرفان کے یہاں عشق ایک ایسا جذبہ ہے جو کئی جذبوں کا مرکب ہے اس میں تکلف بھی ہے ، جذباتی کیفیات بھی ہیں، فریب خوردگی بھی ہے، روا روی بھی ملتی ہے، الغرض کئی رنگ ہیں ، کئی جذبے ہیں، کئی روپ ہیں جو عرفان کے جذبۂ عشق کی تعمیر کرتے ہیں ۔ مگر شاہراہ اعتدال کو عرفان تو سے جانے نہیں دیتے۔مثلاً عرفان کے اشعار دیکھئے :
ڈار سے اس کی نہ عرفان جدا کر اس کو
کھول دے بند وفا اور رہا کر اس کو
دیکھتے ہیں تو لہو جیسے رگیں توڑتا ہے
ہم تو مرجائیں گے سینے سے لگا کر اس کو
اس کی آنکھیں ہیں کہ اک ڈوبنے والا انسان
دوسرے ڈوبنے والے کو پکارے جیسے
دیدنی ہے مجھے سینے سے لگانا اس کا
اپنے شانو سے کوئی بوجھ اتارے جیسے
چاہت ہے کہ کہیں مجھ سے بہا کر لے جائے
تجھ سے بڑھ کر تو مجھے موج فنا چاہتی ہے
ندائے کوہ بہت کھینچتی ہے اپنی طرف
مرے ہی لہجے میں وہ حیلہ جو پکارتا ہے
تو کیا بدن کا بھی صدقہ حرام ہے ہم پر
یہاں بھی ترک طلب کا سوال آئے گا کیا
میں تو اک بادل کا ٹکڑاہ ہوں اڑا لے چل مجھے
تو جہاں چاہے وہاں موج ہوا لے چل مجھے
ایک دن اس لمس کے اسرار کھلنا جسم پر
ایک شب اس خال میں برق و شرر کا جاگنا
عشق میں ہم کوئی دعویٰ نہیں کرتے لیکن

عرفان صدیقی اس بات سے باخبر ہیں کہ کوئی بھی جذبہ دائمی نہیں ہوتا نہ ہمیشہ کے لیے ٹھہرتا ہے اور نہ ہی ہمیشہ کے لیے رخصت ہوتا ہے بلکہ مختلف اوقات میں مختلف تجربات کا سامنا ہی زندگی سے عبارت ہے۔ ایک ہی شخص ایک وقت میں بہت مخلص ہوتا ہے جب کہ کسی دوسرے وقت میں اس سے نفاق کی بو آتی ہے ، کسی اور وقت میں وہ ظالم کا روپ دھارن کرلیتا ہے پھر کسی وقت وہ حددرجہ مہربان اور شفیق دکھائی دیتا ہے ۔ کسی بھی جذبے کو بنیاد بنا کر کسی شخص کے تعلق سے کوئی رائے قائم کرنا نفسیات انسانی کی ابجد تک سے واقفیت کی دلیل ہے۔ یہاں یہ الگ بات ہے کہ کچھ جذبے بذات خود تو عارضی ہوتے ہیں مگر ایسے فیصلہ کن نتائج کا اعلان کرجاتے ہیں جن کے اثرات دیرپا ہوتے ہیں۔ اور پھر کسی بھی طرح ان کی بھر پائی نہیں ہوپاتی۔
عرفان صدیقی ایک ایسے وقت میں پیدا ہوئے جب پرانے اور فرسودہ نظریات اپنا بوریا بستر سمیٹنے میں مصروف تھے، چہار دانگ عالم میں کو آنٹم میکنکس کا دور دورہ تھا۔ فلسفہ تو فلسفہ سائنس کے بھی کلاسیکی نظریات کو بیک قلم مسترد کردیا گیا تھا، البرٹ آئینسٹائن کے نظریۂ اضافت کا ہرطرف چرچا تھا۔ آئینسٹائن نے نظریۂ اضافت کے ذریعے یہ ثابت کردیا تھا کہ مادہ توانائی میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ وقت ہر موجود کا چوتھا بعد ہے۔ زمان و مکاں مل کر ہی کسی وجود کی تکمیل کرتے ہیں۔ آئینسٹائن نے دنیا کو انگشت بد نداں کر رکھا تھا۔ جہاں ساری دنیا کا ادب اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا وہیں اردو شاعری نے بھی اس کا خاطر خواہ اثر لیا۔ آخر اردو شاعری میں بھی ساقی فاروقی ، ظفر اقبال اور منیر نیازی جیسے شعرا موجود تھے ۔ جو ایک طرف نئے نظریات کے گہرے ادراک سے متصف تھے تو دوسری طرف ان کی جڑیں روایت میں بھی بہت دور تک پیوست تھیں۔عرفان صدیقی کے اشعار میں بھی اس کی جھلک ملتی ہے۔ اور خوب ملتی ہے :
یہ مشک ہے کہ محبت مجھے نہیں معلوم
مہک سی میرے ہرن کی طرف سے آتی ہے
کسی کے وعدۂ فردا کے برگ و بار کی خیر
یہ آگ ہجر کے بن کی طرف سے آتی ہے
نبض عالم میں رواں تیری حرارت ہی تو ہے
کہ یہ عالم تیرے ہونے کی بدولت ہی تو ہے
اس شعر میں تو عرفان نے Big Bang Theory سے لے کر Quantum Mechanics تک کا سفر جتنی آسانی سے کیا ہے اس کی مثال ملنی مشکل ہے ۔ یہی عرفان صدیقی کی خوبی ہے کہ انھوں نے جس میدان میں بھی قدم رکھا اس میدان کے تعلق سے بڑا شعر ضرور کہا خواہ وہ میدان تاریخی اتھل پتھل سے متعلق رکھتا ہو، قدروں کے زوال سے عبار ہو، فلسفہ سے متعلق ہو، کربلا کا واقعۂ حق و باطل ہو یا پھر ازل سے جاری معرکۂ خیر و شر کے مضامین اپنے اندر لیے ہوئے ہو، تصوف کا کوئی مضمون ہو ، الغرض جو بھی میدان عرفان نے اپنا تختۂ مشق بنایا تو اس میں بڑا شعر بھی ضرور کہا۔ اور کیوں نہ ہو آخر عرفان بہ زبان عرفان:
مرے پتھر ہونٹ حکایت ہیں
میں حرف تری محرابوں کا
اور محرابوں کے اسی حرف نے جب شکوہ کی صورت اختیار کی تو وہاں بھی اپنے آپ کو منوائے بغیر دم نہیں لیا۔ مثلاً ہمارے سامنے اقبال کا شکوہ ہے جو بہت مشہور ہونے کے باوجود فنی اعتبار سے اتنا بلند نہیں جتنا بلند عرفان صدیقی کا غیر معورف شکوہ ہے۔ بعض ناقدین کی رائے میں اقبال کے شکوہ میں غیر ضروری حوالے ہیں مگر عرفان کے یہاں ایسا نہیں ہے۔۔مثلاً اقبال کہتے ہیں :
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
یہ اور اسی طرح کی بہت سی باتوں کے ذریعے علامہ اس بارگاہ رب العزت کو یاد دہانی کا فریضہ انجام دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے
پہلی بات تو یہ کہ اقبال کا شکوہ بے جا ہے۔ کیوں کہ وہ لوگ جنھوں نے صبر و شکر اور قربانیوں کی عظیم تاریخ رقم کی تاریخ کے صفحات شاہد ہیں کہ انھیں بارگاہ رب العزت نے اس دنیا میں بھی بہت نوازا۔ اور جو لوگ ذلیل و خوار ہیں ان کے کردار میں بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے والوں کی ہلکی سی جھلک بھی دکھائی نہیں دیتی۔ پھر طومار باندھنے کی کیا ضرورت تھی۔ جب کہ دوسری طرف عرفان صدیقی خدا کو اس کے قول و اقرار اور عہد و پیمان کے حوالے سے شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور عرفان شکوہ کے ذریعے صرف ناکامی کی وجوہات جاننا چاہتے ہیں ۔ الحاصل اس شکوہ میں بھی یہ اعتراف چھپا ہوا ہے کہ کہیں نہ کہیں یہ بھی ہماری کرنی کا نتیجہ ہے۔ عرفان کے چند شعر ملاحظہ فرمائیے:
حق فتحیاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا
تونے کہا تھا تیرا کہا کیوں نہیں ہوا
جو کچھ ہوا وہ کیسے ہوا جنتا ہوں میں
جو کچھ نہیں ہوا وہ بتا کیوں نہیں ہوا
وہ شعلہ ساز بھی اس بستی کے لوگ تھے
ان کی گلی میں رقص ہوا کیوں نہیں ہوا
کیا جذب عشق مجھ سے زیادہ تھا غیر میں
اس کا حبیب اس سے جدا کیوں نہیں ہوا
جب خدا اس زمیں پہ اٹھائے گئے تو پھر
برپا یہیں پہ روز جزا کیوں نہیں ہوا
عرفان صدیقی کی مشکل یہ ہے کہ انھوں نے جن موضوعات کو اپنی شاعری میں سمویا وہ ایک خاص عقیدے کی ترجمانی کرتے تھے اور ان موضوعات کے ہونے پر انھوں نے بڑی شاعری کی مگر دوسری طرف انھیں موضوعات کو لے کر بہت سے دوسرے شعرا نے جب طبع آزمائی کرنی شروع کی تو ان کے اشعار سرے سے کسی لائق ہی نہیں تھے ۔ اس بنا پر ان کے چاہنے والوں کا ایک حلقہ پیدا ہوگیا جو ان کی شاعری سے زیادہ ان کے خیالت کا گرویدہ تھا اس بنا پر انھوں نے جب بھی عرفان صدیقی کا ذکر کیا تو ساتھ میں ایسے ایسے شعرا کو بھی نتھی کرنا شروع کردیا جو سر سے کسی لائق ہی نہیں تھے۔ دوسری طرف ان کے ہم عصروں میں بڑی شاعری کرنے والے شعرا کے عقائد کے بجائے ان کی شاعری کی پذیرئی کرنے والا حلقہ پیدا ہوگیا جس نے بقیہ سب شعرا کو مختلف عقائد کا علمبردار ہونے کے باوجود ایک لڑی میں پرو دیا۔مگر عرفان صدیقی کو انھوں نے عقیدہ و خیال کی بنیاد پر ہی اس گروپ میں شامل نہیں کیا۔ عرفان صدیقی شاعری کے اعتبار سے ساقی فاروقی ، ظفر اقبال، منیری نیازی، شہریار، احمد مشتاق کے سلسلے کے شزعر ہیں اور موضوعات کے اعتبار سے وہ ایسے ایسوں کے ساتھ نتھی ہوگئے جن کی شاعری کسی درجہ میں بھی عرفان صدیقی کی شاعری کے رتبے کی نہ تھی عرفان صدیقی کو بالا آخر انصاف ملا ان کے خیالات کے تقدس اور ان کی شاعرانہ بصیرت کو اردو ادب میں ایک گراں قدر اضافے کے طور پر قبول کرلیا گیا۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ پر ، لیکن اس سے یہ اندازہ توہوتا ہی ہے کہ ہمارے ادبی معاشرے میں بھی مسلکی منافرت کی جڑیں کتنی گہری ہیں۔ کوئی صاحب اگر خاص مسلک کا ہونے کی وجہ سے اس مسلک کے قابل خر ادیب کے ساتھ تیسرے درجے کے اہلیان مسالک ادیبوں کو نتھی کرتا ہے تودوسری طرف دوسرے مسالک کے نقاد دوسرے مسلک کے اس قابل ذکر یا بڑے یا اچھے ادیب کو ہی سرے سے نظر انداز کردیتے ہیں۔
عرفان صدیقی نے اگرچہ فارمولہ ٹائپ یا سکہ بند شاعری سے گریز کیا لیکن انھوں نے اپنے سب سے گہرے تجربات اور سچے اور کھرے جذبات کو شعری جامہ پہنانے میں بھی کسی قیل وقال سے کام نہیں لیا۔ واقعۂ کربلا کو بھی وہ استعاراتی سطح پر اس کو اسی ازلی معرکۂ خیر و شر کی ہی کڑی مانتے ہیں ۔ اسی لیے انھیں میدان کارزار میں سرگرم لوگ پیادوں سے زیادہ کی حیثیت کے دکھائی نہیں دیئے کیوں کہ ان کی نگاہ دوربیں پردے کے اس پار دیکھتی ہے جہاں پر بیٹھ کر وہ راندۂ درگاہ سارا کھیل کھیلنے میں مصروف ہے۔ عرفان کا شعر ہے:
تو نے مٹی سے الجھنے کا نتیجہ دیکھا
ڈال دی میرے بدن نے تیری تلوار پہ خاک
اس شعر کو پڑھتے ہی پڑھنے والا ابلیس کے انکار سے لے کر آدمؑ کے زمین پر آباد سے لے کر کشتئ نوح کے دل دہلا دینے والے واقعے سے ہوتے ہوئے کربلا کے میدان سے بھی گزرجاتا ہے۔ کیوں کہ اسے یاجوج ماجوج کی افواج ، دجال کے خروج، مہدی کے ظہور اور عیسیٰ ؑ کے نزول کے مرحلے بھی طے کرنے ہوتے ہیں۔ عرفان صدیقی کی شاعری کا یہی وصف ہے کہ وہ بہت کم وقت میں شعور سے لا شعور کا فاصلہ طے کرتی ہے۔
عرفان صدیقی پر جتنا بھی لکھا جائے یا جتنا بھی لکھا جائے گا وہ عرفان صدیقی کی شاعری کی عظمتوں کی بین دلیل ہوگا۔ یہ مست قلندر سب سے جدا سب سے الگ غزل سرا رہا۔ سچ ہی کہا ہے عرفان صدیقی نے:
کوئی سلطان نہیں میرے سو امیرا شریک
مسندِ خاک پہ بیٹھا ہوں برابر اپنے

No comments:

Post a Comment