Wednesday, February 1, 2017

’پچھلے چند پرسوں میں خوشبیر سنگھ شاد کا کلام اردو کے ادبی حلقوں میں دلچسپی سے پڑھا جارہا ہے۔ایک زمانہ تھا جب مشاعروں میں 
قبول عام معیار کی سند ہوا کرتا تھالیکن اگر کسی کا کلام سامعین کو بھی متاثر کرئے اور قارئین کو متوجہ کرنے میں بھی کامیاب ہو تو اس کا استحقاق مسلم ہوجاتا ہے۔خوشبیر سنگھ کا نام ’خوشبیر‘اور ان کا تخلص ’شاد‘ ہے۔ان کاعام شعری لب و لہجہ اثبات ذات کا ہے۔ان کا سفر گمان کی فضا میں یقین کی کھوج یا طوفان کے تلاطم میں ساحل کی تلاش ہے اور آج کے حالات میں اس کی ضرورت بھی ہے۔‘‘
شاد کی ہر نئی غزل ہر نیا شعری مجموعہ ان کے شعری سفر میں اضافے کی حیثیت رکھتا ہے آپ ان کے پورے شعری منظر نامے پر نگا ہ ڈالیں گے تو محسوس کریں گے کہ وہ مسلسل ترقی کی طرف اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں ابھی تھکے نہیں ہیں ان کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے اور اس بہت کچھ کو کہنے کا سلیقہ بھی انہیں خوب آتا ہے۔ (گوپی چند نارنگ) پیش خدمت ہے خوشبیر سنگھ شاد کا کلام۔

اپنے زعم کی تشہیر کر رہی ہے ہوا
میں اتنا بکھرا نہیں جتنا لے اڑی ہے ہوا
یہ احترام مرا کیوں ہے سب پتا ہے مجھے
مجھے نہیں‘ مری خوشبو کو چاہتی ہے ہوا
میں اس کے ساتھ رہا ہوں کئی بگولوں میں
یوں ہی نہیں مری وحشت کو مانتی ہے ہوا
بتاؤ کون سا کردار ہے پسند تمہیں؟
چراغ عارضی ہوتے ہیں، دائمی ہے ہوا
اٹھا تو لائی مری گرد اپنے شانوں پر
یہ دیکھنا ہے کہاں اب اتارتی ہے ہوا؟
تجھے خبر ہی نہیں ہے تری حفاظت کو
تمام رات اندھیروں میں جاگتی ہے ہوا
جو ٹوٹتا سا تسلسل ہے میری سانسوں کا
کہیں دیار بدن میں ٹھہر گئی ہے ہوا
یہ بات شادؔ بہت مشترک ہے دونوں میں
مری ہی طرح یہاں خاک چھانتی ہے ہوا

2.
ہر نفس اک فکر سی بے تاب رکھتی ہے مجھے
نیند کے عالم میں بھی بے خواب رکھتی ہے مجھے
ایک موج مہرباں کا مجھ پہ یہ احسان ہے
خود کو گردش میں، پسِ گرداب رکھتی ہے مجھے
کل اندھیروں میں تھی باہم دیر تک یہ گفتگو
کون سی وہ لَو ہے جو شب تاب رکھتی ہے مجھے؟
بس صدف کھل جائے اور پھر دیکھ لے دنیا تجھے
خوش گمانی میں مری یہ تاب رکھتی ہے مجھے
جذب ہو جاتی ہے خود آنکھوں کے ریگستان میں
ظاہرہ تو یہ ندی سیراب رکھتی ہے مجھے
درد کو اشعار میں تبدیل کر لیتا ہوں میں
یہ ترو تازہ ہوا شاداب رکھتی ہے مجھے

3.

آس ہر نقش میں کچھ رنگ سجانے لگ جائے
خواب سوچیں بھی تو تعبیر ستانے لگ جائے
دستکو کھولتا ہوں میں ابھی دروازۂ دل
درد آیا ہے جو پہلے وہ ٹھکانے لگ جائے
اپنی مرضی سے پلٹتی تو نہیں ہیں آنکھیں
کیا کریں جب کوئی چہرہ ہی بلانے لگ جائے
کیا بُرا ہے تری صورت سی کوئی صورت ہو
دل کہیں اور اگر تیرے بہانے لگ جائے
میں ملاتا نہیں بستی میں کسی سے آنکھیں
پھر کوئی اپنی کہانی نہ سنانے لگ جائے
شادؔ آنکھیں بھی ترو تازہ اٹھیں وقت سحر
کاش یہ نیند کسی خواب کے شانے لگ جائے

4.
سمندر میں بھی تُو کب تک رہے گا؟
تجھے سورج کسی دن لے اڑے گا
میں ضائع ہو رہا ہوں اپنے ہاتھوں
کوئی نقصان میرا کیوں بھرے گا؟
ابھی کچھ دیر میں چہکیں گی شاخیں
ابھی کچھ دیر میں یہ دن ڈھلے گا
بڑی فرصت کی ہے میری کہانی
تو عجلت میں اِسے کیسے سنے گا؟
اسے کیوں بے طرح دیکھا ہے تونے؟
وہ چہرہ آئنے سے کیا کہے گا؟
چلو پانی سے بجھ جائیں گے شعلے
مگر ان سے دھواں بھی تو اٹھے گا؟
جو میں نے توڑ دی اپنی خموشی
تو اتنا شور کیسے سن سکے گا؟
ترا یہ ساتھ کتنا خوش نما ہے
مگر یہ ساتھ بھی کب تک رہے گا

4.
کوئی انکار سا مجھ میں کہیں اٹھنے لگا ہے
مرا اب ان عقیدوں سے یقیں اٹھنے لگا ہے
غبار فکر پہلے بے ضرر ہوتا تھا لیکن
یہ لے کر ساتھ اب دل کی زمیں اٹھنے لگا ہے
یہ کن بجھتے ہوئے سرکش چراغوں کا دھواں ہے ؟
جہاں ممنوع تھا اٹھنا، وہیں اٹھنے لگا ہے
وہ جن خوش فہمیوں میں مبتلا تھے آج تک ہم
وہ پردہ کچھ پلوں میں ہم نشیں اٹھنے لگا ہے
ہے دشتِ آرزو کچھ اور بھی صورت سفر کی
مرا تو ان سرابوں سے یقیں اٹھنے لگا ہے

5.
اتنی وحشت ہے کہ سودائی ہوئے جاتے ہیں
ہم وہ تنہا ہیں کہ تنہائی ہوئے جاتے ہیں
کیوں نہیں ہوتی ہیں منکر مری آنکھیں ان سے
یہ جو منظر مری بینائی ہوئے جاتے ہیں
سر پہ جلتا ہوا سورج ہے زمیں شعلوں سی
ہم تو یہ سوچ کے صحرائی ہوئے جاتے ہیں
دیکھتے رہتے ہیں بدحال طبیعت میں ہمیں
اب تو اپنے بھی تماشائی ہوئے جاتے ہیں
ہم نے دیکھا ہے کہ اس شہر طلسمات میں لوگ
ایک آواز کے شیدائی ہوئے جاتے ہیں
اب تو یہ زہر بھی پی لیتے ہیں تیری خاطر
زندگی کیا ترے صحبائی ہوئے جاتے ہیں
شادؔ جو جھوٹ نہ تسلیم کبھی ہم سے ہوئے
آج اِس دور کی سچائی ہوئے جاتے ہیں

No comments:

Post a Comment