محمد حمید شاہد
اِنتظار حسین کی یاد میں
کہنے کو پورا سال بیت گیا ہے ، انتظار حسین کو ہم سے بچھڑے مگر لگتا ہے وہ اس سال بھی پل پل ہمارے ساتھ رہے ہیں ۔ کچھ کہتے ہوئے اپنی بیٹھی بیٹھی سی آواز میں اور اس تشویش کے ساتھ جو انتظار حسین کے سارے فکشن میں یہاں وہاں اچانک برآمد ہو کر اپنے قاری کا دل مٹھی میں کر لیا کرتی ہے ۔ عین آغاز میں ہی سلیم احمد کی طویل نظم’’ مشرق‘‘ کی وہ سطریں یادآگئی ہیں جن میں سے انتظار حسین کی مخصوص آواز اور تشویش کو ایک ساتھ جھلک دیتے دیکھا جا سکتا ہے :
’’انتظار اپنی مخصوص آواز میں
جو گلے کی خرابی کے باعث نہیں
ویسے ہی
بیٹھی بیٹھی سی لگتی ہے
یہ کہہ رہا تھا
’’اٹھو یار‘‘
تم تو بہت سو چکے
اب اٹھو ۔۔۔چائے پی لو
خبر ہے ہماری ٹرین اب کہاں جائے گی‘‘
( ’’مشرق‘‘: سلیم احمد )
یہاں جس ٹرین کا ذکر ہو رہا ہے ، اس پر انتظار حسین سوار تھے اور سلیم احمد بھی، ایک چھوٹی سی بستی ڈِبائی ،جو بلند شہر کے ضلعے میں علی گڑھ کے قرب میں واقع تھی، پیچھے رہ گئی تھی اور ایک تشویش ساتھ ہو لی تھی ، سامنے لاہور تھا اور کہا یہ جا رہا تھا کہ یہاں ٹرین کو ٹھہرنے کی اجازت نہ ہوگی ۔خیر، ٹرین وہاں رُکی،انتظار حسین اُترے اور لاہور ہی میں ٹھہر گئے ۔ ٹھہر گئے نہ کہیے کہ وہ تو وہاں بس گئے تھے ۔ یہ شہرایسا تھا جو انہیں گرفتار کر سکتا تھا ، اور اس نے گرفتار کیا، کچھ اس طرح وہ اس میں بستے تھے اور اپنے ڈِبائی کو دل میں بسا سکتے تھے۔ ’’جنم کہانیاں‘‘ کے آخر میں انتظار حسین نے اپنے کرداروں کے حوالے سے کچھ باتیں کی ہیں ، اسی تحریر میں وہ کہتے ہیں:
’’جو لوگ اچانک اوجھل ہو گئے تھے وہ مجھے بے طرح یاد آرہے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں میں اپنی بستی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ آیا تھا۔ مگر پھر وہ لوگ بھی یاد آتے تھے جو منوں مِٹی میں دبے پڑے تھے ، میں اپنی یادوں کے عمل سے ان سب کو اپنے نئے شہر میں بلا لینا چاہتا تھا کہ وہ پھر اکٹھے ہوں اور میں ان کے واسطے سے اپنے آپ کو محسوس کر سکوں ۔‘‘
یوں ہے کہ انتظار حسین ۱۷ ، اکتوبر ۱۹۴۷ ء کواپنی نئی بستی لاہور اُترے تھے اپنے اندر بسے ہوئے قصبے اور اس کے لوگوں کے ساتھ ۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس قصبے میں لگ بھگ وہ دس گیارہ سال ہی رہے ہوں گے مگر انہیں لگتا ، وہاں وہ ایک پوری صدی رہے تھے ۔ وہ چھوٹا سا قصبہ وہ چھوٹی سی زمین ، وہ بستی اور اس کی نواح میں چھوٹے چھوٹے دیہات ، جہاں وہ یکے میں بیٹھ کر جایاکرتے تھے اور کبھی کبھی بیل گاڑی میں ، ایک پورا برا عظم تھا۔جی ،براعظم کہیں یا ایک پوری تہذیب، انسانوں، پرندوں اور درختوں کی تہذیب ۔
نہ جانے کیوں ٹی وی کے کسی کمپیئرکے سوال کا جواب دیتے ہوئے انتظار حسین نے یہ کیوں کہہ دیا تھا کہ جب اُکھڑی ہوئی خلقت کا سیلاب امڈا ہوا تھااور سیلاب میں بہت سا خس و خاشاک بھی بہتا چلا آیاتھا تو بس ایسے ہی وہ بھی ایک تنکے کی صورت بہتے یہاں چلے آئے تھے جب کہ کئی اور مقامات پر وہ بتاتے آئے ہیں کہ میرٹھ میں ان کی ملاقات حسن عسکری سے ہوئی تھی اور پھر تعلق ایسا بنا کہ انہی کے اپنے نام ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے ایک اعلان کو سن کر، جو فی الاصل پاکستان آنے کی دعوت تھی، انہوں نے ہجرت کا فیصلہ کیا تھا ۔خیر وہ یہاں آگئے تھے اور ادھر ادھر بہت زیادہ بھٹکنے کی بہ جائے افسانہ نگاری کی طرف آگئے اور پھر اس علاقے میں اتنی دور تک گئے کہ کوئی اور اتنی دور تکچلتا تو اس کی سانسیں کب کی اکھڑ جاتیں ۔ ہم نے کئیوں کی راہ میں سانسیں اکھڑتے یا ادبدا کر کسی اور طرف نکلتے دیکھا ہے مگر انتظار حسین کا کہانی کی جس قبیل سے تعلق تھا وہ ان کے اندر سے پھوٹتی تھی اوراس بستی کے گلی کوچوں ، امام باڑوں اور چوباروں سے بھی کہ جس بستی کی مٹی میں اُن کی آنول نال گڑھی ہوئی تھی اور اس ہجرت سے بھی کہ جو پیچھے جاکر ایک اور ہجرت سے جڑ کراپنا معنیاتی دائرہ وسیع تر کر لیتی تھی ۔ ایسی کہانی ایک بار آغاز پکڑ لے تو ختم کہاں ہوتی ہے ۔ یہ ۲۰ ستمبر ۲۰۱۴ ء کی بات ہے، حکومت فرانس کی طرف سے انتظار حسین کو ایک اعزاز سے نوازا جارہا تھا ، اسی موقع پر انہوں نے اپنی کہانی کے یہ بھید بھرا قرینہ کھولتے ہوئے کہا تھا:
’’کہانی جب شروع ہو جائے تو اس کا کوئی انت نہیں ہوتا۔ کہانی کار کا قلم جہاں رُک جاتا ہے ،اسے ہم ناول یا افسانے کا انجام سمجھ لیتے ہیں۔ مگر کہانی تو پھر بھی جاری رہتی ہے۔ ‘‘
صاحب ،انتظار حسین کی اپنی زندگی کی کہانی ہو یا ان کے فن کی اس میں لگ بھگ ایک جیسے بھید بھنور ہیں یہ دونوں کہانیاں ایک دوسرے کا راستہ کاٹتے ہوئے چلتی ہیں اور مجھے تو یوں لگتا ہے یہ ایک دوسرے میں پیوست ہو کر ہی آگے بڑھ سکتی تھیں ، سو اسی قرینے سے آگے بڑھتی رہیں ۔ اور یہ جو کہا جاتا ہے، بجا ہی کہا جاتا ہے کہ وہ واقعات جو انتظار حسین کے فکشن میں آکر سج جاتے ہیں ، ایک تہذیب کا مظہر ہو جاتے ہیں اور متن کو معنویت سے کناروں تک بھر جاتے ہیں، ان میں اتنا دم خم نہیں ہوتا کہ کہانی کا بھرم رکھ سکیں ،یہ تو انتظار حسین کا جادوئی بیانیہ ہی ہوتاہے جو کرداروں کو، کہانی میں بسے لوگوں کے رویوں کو ، ایک ایک منظر کو اور بنتے بگڑتے ماحول کو ایک کہانی میں باندھ دیتا ہے ، کچھ یوں جیسے استخواں پر مڑھے ہمارے وجود کے سارے چیتھڑوں کو ہمارا پوست گٹھری میں باندھ لیتا ہے ۔ اور ہاں آصف فرخی نے یہ جو کہا ہے کہ انتظار حسین کا اردو افسانے میں روپ انوکھا ہے تو سچ ہی کہا ہے ۔ بہ قول اُن کے، شایدایسا اس لیے ہے کہ انتظار حسین بعض جدیدیوں کے لیے تکلیف دہ حد تک پرانے ہیں اور بعض سکہ بند پرانوں کے لیے ناقابل برداشت حد تک نئے ۔ آصف فرخی نے یہ بات انتظار حسین کی زندگی اور فن پر لکھی ہوئی اپنی کتاب میں کہی ہے اور ساتھ ہی یہ سوال اٹھایا ہے کہ اب اس نئے پرانے کا فیصلہ کون کرے؟
مجھے یہاں یہ کہنا ہے کہ آخر ، وہ ہم پر کیا افتاد آ پڑی ہے کہ نئے پرانے کا فیصلہ کرنا ہماری جان کا روگ ہوا ہے ۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ایسے ہی سوالات نے ہمارے فکشن کی راہ میں کئی رخنے کھڑے کیے رکھے ہیں اور ہم قدم قدم پر رُک کران سے نمٹنے کو کہانی میں رُجھا ہوا اپنا دھیان توڑتے رہے ہیں ۔ یہاں انتظار حسین کے ایک افسانے سے چند سطریں مقتبس کرنا چاہتا ہوں :
’’اُس نے کروٹ لی اور سوچا ، میں ماضی میں ہوں یا مستقبل میں ہوں۔ ماضی ، حال ،مستقبل، بیداری ،خواب سب کچھ گڈ مڈ تھا جیسے وہ جاگ بھی رہا تھا اور سو بھی رہا تھا جیسے وہ ماضی ،حال اور مستقبل کے منطقوں میں بکھرا پڑا تھا‘‘(کانا دجال:انتظار حسین)
ایک ٹکڑا ان کے ناول ’’بستی‘‘ سے بھی کہ انتظار حسین کا اور ان کی کہانی کا مزاج آنکنے میں سہولت ہو ۔ مرحلہ ہمارے ٹوٹنے کا ہے ، دولخت ہونے کا ہے :
’’ایک سوال کرنے والے نے سوال کیا کہ یا سیدالساجدین ،آپ نے صبح کس عالم میں کی ؟آپ نے فرمایا ،پالنے والے کی قسم ، ہم نے بنو امیہ کے ظلم میں صبح کی۔ ‘‘ابا یہ کہہ کر افسردہ ہو گئے ۔ کہنے لگے، ’’بیٹے تب سے اب تک وہی صبح چل رہی ہے ۔‘‘
جب ہمارا وجود ماضی حال اور مستقبل کے منظقوں میں بکھرا ہوا ہے ، جب ہم پر گزرنے والی ہر شب ایک سی اور طلوع ہونے والی صبح بھی ایک سی ہے تو ہماری کہانی، اپناوتیرہ کیسے ترک کرسکتی تھی ، تاہم ایسا ہے کہ اپنے ماضی میں دور تک جڑے ہوے وقت کی تہذیب چاہے کتنی بوسیدگی لیے ہوئے ہو ،ہر نئی صبح کچھ نہ کچھ جھاڑتی جھٹکتی رہی ہے اور کچھ نئی کرنوں سے سجتی سنورتی رہی ہے ، سو اسے انتظار حسین نے بھی اپنے تخلیقی وجود کا حصہ بنایاہے۔
دیکھیے افسانوں کی پہلی ہی کتاب ’’گلی کوچے‘‘ میں جہاں’’ قیوما کی دکان‘‘ اور’’ روپ نگر کی سواریاں‘‘ جیسے افسانے ہیں ،وہیں ’’ایک بن لکھی رزمیہ ‘‘ جیسا تیکنیکی سطح پر نئی راہیں سجھاتا افسانہ بھی ہے ۔ کچھ ایسا ہے کہ عین آغاز ہی سے وہ روایت میں کاٹ پھانس کو شعار کیے ہوئے تھے،اور ایسا وہ آخری سانس تک کرتے چلے گئے ۔ یہ سوال الگ کہ کہاں کہاں وہ جست لگاکر ایک روشن لکیر بنے اور کہاں ان کا تجربہ گیلی شرلی کی طرح جل کر وہیں بجھ گیا۔ خیر، جہاں جہاں ہمیں گماں گزرتا ہے کہ ان کا تجربہ کامیاب نہ رہا وہاں وہاں بھی ، وہ اپنے خالص تہذیبی بنانیے کی وجہ سے متن کو ایسا بنا لیتے ہیں کہ اُن پر بھی رشک آتا ہے۔
گلی کوچے(۱۹۵۲ء) کا ذکر ہوا تو بتاتا چلوں کہ فکشن نگاری کے اس سفر میں ’’چاندگہن‘‘(۱۹۵۳)، ’’کنگری‘‘(۱۹۵۵ء)،’’دن اور داستان‘‘(۱۹۶۲ء) سے’’ آخری آدمی‘‘(۱۹۶۷ء) تک پہنچنے کے سارے عرصے میں انتظار حسین نے جس تخلیقی رچاؤں سے کہانی کا تہذیبی بیانیہ تشکیل دیا ہے اورافسانے یا ناول کی ساخت کو بدل بدل کر جس طرح نئی صورتیں دکھائی ہیں ،اس نے، اس سارے عرصے میں، اُن کے فن کو مسلسل موضوع بحث بنا ئے رکھا تھا ۔’’ آخری آدمی‘‘ تک آتے آتے لگ بھگ وہ اپنی تخلیقی وفور کیبلندقوس پر تھے۔ ان کے معروف ناول’’ بستی‘‘(۱۹۸۰ء) کو بھی یہیں آس پاس دیکھا جاسکتا ہے۔ ’’شہر افسوس ‘‘(۱۹۷۲ء)،’’کچھوے ‘‘(۱۹۸۱ء)،’’خیمے سے دور‘‘(۱۹۸۶ء)کے بعد ’’نئی پرانی کہانیاں‘‘ تک کا سفر اسی قوس کی بلندی اُترنے کا سفرسہی مگر یہ وہ عرصہ ہے جب انہیں اپنی ہجرت کو بہت پیچھے جا کر جوڑنے میں اُلجھن ہونے لگی تھی اور اس کی معنویت میں رخنے پڑنے لگے تھے حتی کہ انہوں نے سامنے دیکھا تو انہیں بپھرتا سمندر نظر آیا تھا ۔ میں نے کہا تھا نا، کہ کہانی انتظار حسین کے وجود میں اور انتظار حسین کا وجود ان کی کہانیوں کے اندر پیوست ہے دونوں کو الگ الگ پڑھا تو جاسکتا ہے ڈھنگ سے سمجھا نہیں جا سکتا ہے ۔ شہر افسوس میں انتظار حسین نے کہا تھا:
’’میں بھی اپنے وقت میں مقید ہوں اور اپنی واردات کا اسیر ہوں ۔ میں کہانی کیا لکھتا ہوں اپنی بکھری مٹی سے ذرے چنتا ہوں ۔ مگر مٹی بہت بکھر گئی ہے ‘‘
ان کے وجود کی اس بکھری مٹی کو ان کے افسانے’’خواب اور تقدیر‘‘ سے مقتبس اس عبارت سے جوڑ کر دیکھیے:
’’ہاں میں یہی سوچتا ہوں کہ کوفہ کیا اور کیوں ؟ بار بار اس خیال کو دفع کرتا ہوں اور بار بار یہ خیال دامن گیر ہوتا ہے کہ مبارک قریوں کے بیچ کوفہ کیسے اور کیوں کر نمودار ہو گیا اور کتنی جلدی نمودار ہوا۔ ہجرت کو ابھی ایسا کون سا زمانہ گزر گیا تھا؟‘‘
نہیں ،شاید میں نے اس افسانے کا یہ ٹکڑا درج کرنے میں جلدی کی مجھے پہلے یہ بتانا چاہیے تھا کہ انتظار حسین کے اندر بھی ایک کربلا بسی ہوئی تھی ۔ایک مرتبہ انہوں نے کہا تھا:
’’سو اے دوستو ، میں نے عالی نسبی کا کوئی دعویٰ نہیں کیا مگر میرے اہل خاندان شجرہ لیے کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ کربلا کی خاک سے بہنے والے خون سے جو چھینٹے اُڑے ،انھیں میں سے ایک چھینٹا ہم بھی ہیں۔‘‘
سو،یوں ہے کہ انتظار حسین کر بلا میں بہتے ہوئے خون کا ایک چھینٹا تھے ۔ اور ان کا مبارک قریے کی بابت تشویش میں مبتلا ہونا اور اپنے فکشن کے ہر ہر مرحلے پراس قریے سے،کہ جس سے وہ ایک تہذیبی رشتہ استوار کر چکے تھے ،ایسے سوالات اچھال دینے کی ایک گہری معنویت ہے۔ ’’آگے سمندر ہے‘‘ سے ایک اقتباس:
’’میں اگر جانتا ہوں تو بس اتنا کہ ایک وقت کشتیاں جلانے کا ہوتا ہے اور ایک وقت کشتی بنانے کا ۔ وہ وقت بہت پیچھے رہ گیا جب ہم سے اگلوں نے ساحل پر اتر کر اپنی ساری کشتیاں جلا ڈالی تھیں ۔ اب بپھرتا سمندر ہمارے پیچھے نہیں ،ہمارے سامنے ہے اور ہم نے کوئی کشتی نہیں بنائی ہے ۔‘‘
لیجئے، یہاں تک آتے آتے ہمارے دلوں میں پھر سے وہی خوف اور وہی وسوسہ بیٹھ گیا ہے جواُدھر سے ایک ٹرین میں بیٹھ کر ادھر آنے والوں کے دلوں میں بیٹھا ہوا تھا، مجھے یوں لگتا ہے وہ ٹرین اتنی بڑی ہو گئی ہے کہ ہم سب اس کا حصہ ہیں اور انتظار حسین اپنی بیٹھی ہوئی مخصوص آواز میں کہے جاتے ہیں :
’’اٹھو یار
تم تو بہت سو چکے
اب اٹھو ۔۔۔چائے پی لو
خبر ہے ہماری ٹرین اب کہاں جائے گی۔‘‘
No comments:
Post a Comment