گلزار سے زمرد مغل کی بات چیت
گلزار نے اعلیٰ ادبی سطح پر اپنی ایک الگ شناخت بنائی ہے ۔ اردو شاعری میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جو عوامی سطح پر بہت مقبول و معروف ہوئے وہ ادبی سطح پر اس طرح جانے پہچانے نہیں گئے، اور جنہوں نے اپنی شناخت ادبی حوالے سے بنائی وہ عوام سے کسی طرح کٹ گئے ، لیکن گلزار فلمی دنیا کا عوامی سطح اور خاص ادبی سطح کی شاعری کا وہ مشہور و معروف نام ہے جس نے ہر ایک کو اپنی شاعری سے اپنے مخصوص لہجے سے کسی نہ کسی طور متاثر کیا ہے ۔ آپ فلم، شاعری اور کہانی کی دنیا کے نہایت ہی اہم نام ہیں۔ گلزار سے زمرد مغل کی بات چیت ملاحظہ فرمائیں ۔
زمردمغل: اعلیٰ ادبی شاعری اور عوامی سطح کی شاعری آپ نے دونوں طرح کے پڑھنے والوں کو متاثر کیا ہے ۔ اعلیٰ ادبی شاعری اور عوامی سطح کی شاعری کرتے ہوئے آپ کو کن تجربات سے گزرنا پڑا ؟
گلزار: میرا خیال ہے عوام میں فرق ہے یا ان سطحوں میں فرق ہوگا شاعری میں تو نہیں ۔ جاوید اختر اگر پاپولر ہیں تو ان کا ادبی مقام بھی ہے اس سے آپ انکار نہیں کرسکتے ۔ مجروح صاحب فلم کے لیے بھی لکھتے رہے اور ان کی کتاب بھی بہت پسند کی گئی یا وہ شاعر جو رسالوں میں لکھتے ہیں یا کتابیں ہیں جن کی اب ان کتابوں سے بھی چیزیں فلموں میں لی گئی ہیں ۔ ان کا رتبہ ان کا درجہ تو کم نہیں ہوگیا ۔ جیسے میں کہوں کہ ساحرصاحب کی نظمیں اور غزلیں فلموں میں بھی آ گئی پھر اسے عوامی شاعری کہیں گے یا آپ اسے ادبی شاعری کہیں گے ۔ وہ تو دونوں جگہ وہی ہے تو فرق عوام میں ہوا جو فلم دیکھنے والے ہیں وہ بھی سن رہے ہیں اور جو پڑھنے والے ہیں وہ بھی پڑھ رہے ہیں۔ فلم میں بات کرتے ہوئے شاعر اپنا کمینٹ نہیں دے سکتا وہ اس Statement نہیں ہے اس کا بیان نہیں ہے ایک Commissioned کام ہے ایک خاص کہانی ہے ایک Situation ہے اس Situation میں ایک کردار اس کردار کی ایک زبان ہے اس زبان میں لکھنا ہے۔ فلموں میں لکھی گئی شاعری اس کا اپنا بیان نہیں اپنا بیان اس کی نجی شاعری میں ہے اپنی کتابوں میں ہے۔
زمردمغل: گلزار صاحب کچھ لوگوں نے جیسے شہریار ہیں جنہوں نے امراؤ جان ادا اور گمن جیسی فلموں کے لیے لکھا یا ایک نام آپ کا ہے آپ کی چیزیں جب ہم سنتے ہیں چاہے وہ جگت سنگھ کی آواز میں ہوں یا آپ کی خود کی آواز میں پھر ان کو پڑھتے بھی ہیں ویسے ہی ان چیزوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ میں یہ جاننا چاہ رہاتھا کہ گلزار یا شہریار ایک توازن رکھنے میں کامیاب رہے باقی لکھنے والوں کے یہاں گلزار صاحب ہمیں چیز دیکھنے کو نہیں ملتی کہ اگر ان کی کوئی چیز گائی گئی ہے تو وہ بہت کمزور ہے ادبی سطح پر اس کا مقام و مرتبہ نہیں ہے۔ لیکن آپ کے ساتھ ایسا نہیں ہے ۔
گلزار:سوال یہ ہے کہ اگر وہ کمزور ہے تو وہ شاعری ہی کمزور ہے پھر جیسے میں ایک مثال دوں کیوں کہ یہ ادب اور فلم کے میڈیم کی بات شروع ہو گئی ہے اس لیے کہ :
میرا جوتا ہے جاپانی
یہ پتلون انگلستانی
سر پہ لال ٹوپی روسی
پھر بھی دل ہے ہندوستانی
شیلندر
یہ زبان عام ہے کیوں کہ اس میڈیم کے لیے ہے شاید نظم یا کسی اور کتاب میں لکھنا ہوتا تو کوئی دوسری طرح کی زبان استعمال کرتے لیکن یہ اس جگہ کی زبان ہے اس میں بھی وہ عام آدمی کے بارے میں کہتے ہیں کہ
ہوں گے راج راج کنور
ہم بگڑے دل شہزادے
ہم سنگھاسن پہ جا بیٹھیں
جب جب کریں ارادے
یہ عام آدمی کی ووٹنگ کی طاقت کا ذکر ہے تو وہ شاعری چھوٹی نہیں ہوتی۔ عام شاعری نہیں ہوگی وہ اس نے اس Situationپر رہتے ہوئے بھی ایک بہت بڑی بات کہی میڈیم الگ ہے بات کرنے کو تو جو جس میڈیم میں جائے اس میڈیم میں بات کرے گا تو بات تو شاعری کی ہے تو یہ شاعری چھوٹی تو نہیں ہو جاتی۔ سوال صرف یہ ہے کہ آپ کن خوبصورتی سے اپنی Commissioned کام نبھاتے ہیں کہ اس Situation پر بھی اور ایک سطح اور کھول کے رکھ دیتا ہے اگر کرید کر دیکھیں گے تو وہ بھی مل جائے گی اور وہ اپنی بات عام لوگوں کے لیے بھی کہہ گئے اور اس Situation پر بھی کہہ گئے اور یہ گانوں میں ممکن نہیں ہوسکتا۔
زمردمغل: اردو زبان کی بقا کے لیے ہم لوگ جو لکھ رہے ہیں، شاعری کر رہے خاص طور سے ہندوستان کے حوالے سے یہ کتنی کار آمد ہے کیا اس شاعری کی وجہ سے زبان کو فائدہ ہورہاہے لوگ اسے پسند کر رہے ہیں۔ اور لوگ اسے سیکھنا چاہتے ہیں ۔
گلزار: کچھ سیکھنا تو میں بھی چاہتاہوں اور جاننا بھی چاہتا ہوں اردو زبان کیاہے ؟ کون سی ہے جس زبان میں ہم بات چیت کررہے ہیں کیا یہ اردو ہے؟ اگر یہ ہندوستانی ہے تو پھر یہ اردو ہے۔ سب لوگ ہندوستانی بولتے ہیں عوام کی زبان ہے فلموں میں بھی ہے پھر اردو کو کیا شکایت ہے اردو ، اردو ہے ۔ ۹۰ فیصد زبان جو بھی بولی جارہی ہے جو فلموں میں ہے وہ اردو ہے اسی کو تو آپ ہندوستانی کہتے ہیں اگر ہندوستانی اردو ہے تو اردو ہندوستانی ہے۔
زمردمغل: گلزار صاحب رسم الخط کا ایک مسئلہ ہے نا؟
گلزار: زبان اور رسم الخط دو الگ چیزیں ہیں آپ کو زبان کا مسئلہ ہے یا رسم الخط سکا مسئلہ ہے؟
زمردمغل: رسم الخط بچے گا تبھی زبان بچے گیگلزار : نہیں ! زبان بچے گی تو اسکرپٹ بچے گا زبان اگر زندہ ہے تو اسکرپٹ آپ سیکھ لیں گے۔ مجھے بنگلہ زبا ن خوبصورت لگتی تھی میں بولنا چاہتا تھا تو میں نے سیکھ لی۔
زمرد مغل: گلزر صاحب فلموں میں جو بالکل اردو سے ناواقف ہیں وہ بھی بہت اچھے ڈائیلاگ بولتے ہیں ۔ وہ یا تو ہندی میں یا رومن میں لکھا ہوا ہوتا ہے ۔ اسکرپٹ کا مسئلہ تو ہے ہی نا؟
گلزار: مسئلہ تو پھر اسکرپٹ کا ہوا نہ زبان کا نہیں پھر اردو زبان کا مسئلہ نہیں ہے اردو کا مسئلہ اسکرپٹ کا ہے ۔ اردو بولی بھی جارہی ہے سنی بھی جا رہی ہے پڑھی بھی جارہی ہے صرف لکھی دکھائی نہیں دے رہی ہے کیوں کہ اردو لکھا نہیں جا رہاہے اردو اسکرپٹ کا مسئلہ جسے حل کرنا چاہیے ایمانداری کے ساتھ کہوں تو نوحہ گری کی عادت تھوڑی اردو والوں کو روتے رہیں گے کہ بڑا ظلم ہورہاہے ہماری زبان کے ساتھ ظلم کیا ہورہاہے آپ کی زبان ہے آ پ اسے اپنا نہیں رہے ہیں اردو جو انیسویں صدی میں بولی جا رہی تھی آپ کیا سمجھتے ہیں کہ وہی اردو ہے کوئی بھی زندہ زبان اپنے دور کے ساتھ ساتھ بدلے گی۔ ہندی کیا وہی ہے سجو تقسیم سے پہلے بولی جا رہی تھی ۔ انگریزی کیا وہی ہے جو پنڈت نہرو اور ملک راج آنند بول رہے تھے آج کی انگریزی تو وہ نہیں ہے ۔ آپ کو اسکرپٹ کا پرابلم حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ زبان تو آپ بول رہے ہیں اور کہ میں بول رہاہو ں اگر یہی اردو ہے تو پھر پریشانی کس چیز کی ہے۔
زمردمغل: یہ مسئلہ تو ہندوستان کی باقی زبانوں کو بھی درپیش ہے مگر ہم لوگ کچھ زیادہ شور کرنے لگتے ہیں ۔
گلزار: اردو کے پاس کوئی وطن نہیں تھا کوئی صوبہ نہیں تھا کوئی علاقہ نہیں تھا۔ آج ایک پورا ملک ہے اردو کے پاس جسے پاکستان کہتے ہیں اس طرح اردو ترقی پر ہوئی یا تنزل کا شکار ہے تو پھر آپ کس بات کی شکایت کررہے ہیں ۔ اردو ایک زبان ہے جس نے صرف زبان کی وجہ سے اپنی بستیاں بسا لی ہیں امریکہ میں بھی ناروے میں اتنی بڑی بستی اردو کی ہے تو پھر تکلیف کس بات کی ہے ۔ آپ اردو کو صرف اپنی جگہ میں ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اردو پھیل رہی ہے اس کا دائرہ لکھنؤ اور دلی سے باہر ہی نہیں نکلتے۔ پاکستان میں تو لکھا بھی اردو اسکرپٹ میں جارہاہے آپ کے ہاں اگر یہ پرابلم میں ہے تو آپ کو کہ خوشی نہیں ہوتی کہ دوسری جگہ کتنی پھیل رہی ہے اردو اسکرپٹ کا مسئلہ جو ہمارے یہاں ہے تو پنجابی تو یہاں بھی بولی جاتی ہے اور پاکستان میں اگر پنجابی اسکرپٹ ہوجائیں تو کیا تکلیف ہے ۔ شبانہ اعظمی ، نصیرالدین شاہ یہ لوگ دیوناگری میں لکھتے ہیں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ لوگ اردو زبان نہیں جانتے ۔ اردو رسم الخط کا مسئلہ حل کیجئے میں نے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کو مشورہ دیا تھاکہ اردو Calligraphy اس قدر خوبصورت Calligraphy بہت کم زبانوں میں ہے جن کے پاس اس طرح کی Calligraphy ہے جس میں بنگلہ ایک ہے ۔ آپ ان کے ڈیزائن بنائیے نہ آپ اردو ڈیزائن کروائیے اس کی فوٹو نکالیے۔ آدمی پوچھے تو صحیح کون سی زبان ہے ۔ لوگوں کو اردو اسکرپٹ کی طرف توجہ تو دلوائیے۔ میں نے قاعدہ بنا کردیا تھا منظوم اردو زبان کا میں نے کہا میں اس کو ریکارڈ کر دیتا رہوں تاکہ بچوں کا تلفظ صحیح ہو جائے۔ اردو کے قاعدے تو اچھے خوبصورت بنائیے۔
بہت بہت شکریہ گلزار صاحب۔
No comments:
Post a Comment