Thursday, February 2, 2017

      راجندر منچندہ بانی
آسماں کا سرد سناٹا پگھلتا جائے گا
آنکھ کھلتی جائے گی منظر بدلتا جائے گا
پھیلتی جائے گی چاروں سمت اک خوش رونقی
ایک موسم میرے اندر سے نکلتا جائے گا
میری راہوں میں حسیں کرنیں بکھرتی جائیں گی
آخری تارا پس کہسار ڈھلتا جائے گا
بھولتا جاؤں گا گزری ساعتوں کے حادثے
قہر آئندہ بھی میرے سر سے ٹلتا جائے گا
راہ اب کوئی ہو منزل کی طرف لے جائے گی
پاؤں اب کیسا پڑے خود ہی سنبھلتا جائے گا
اک سماں کھلتا ہوا سا اک فضا بے داغ سی
اب یہی منظر مرے ہم راہ چلتا جائے گا
چھو سکے گی اب نہ میرے ہاتھ طوفانی ہوا
جس دیے کو اب جلا دوں گا وہ جلتا جائے گا
2
اک گل تر بھی شرر سے نکلا
بسکہ ہر کام ہنر سے نکلا
میں ترے بعد پھر اے گم شدگی
خیمۂ گرد سفر سے نکلا
غم نکلتا نہ کبھی سینے سے
اک محبت کی نظر سے نکلا
اے صف ابر رواں تیرے بعد
اک گھنا سایہ شجر سے نکلا
راستے میں کوئی دیوار بھی تھی
وہ اسی ڈر سے نہ گھر سے نکلا
ذکر پھر اپنا وہاں مدت بعد
کسی عنوان دگر سے نکلا
ہم کہ تھے نشۂ محرومی میں
یہ نیا درد کدھر سے نکلا
ایک ٹھوکر پہ سفر ختم ہوا
ایک سودا تھا کہ سر سے نکلا
ایک اک قصۂ بے معنی کا
سلسلہ تیری نظر سے نکلا
لمحے آداب تسلسل سے چھٹے
میں کہ امکان سحر سے نکلا
سر منزل ہی کھلا اے بانیؔ
کون کس راہ گزر سے نکلا
3
بجائے ہم سفری اتنا رابطہ ہے بہت
کہ میرے حق میں تری بے ضرر دعا ہے بہت
تھی پاؤں میں کوئی زنجیر بچ گئے ورنہ
رم ہوا کا تماشا یہاں رہا ہے بہت
یہ موڑ کاٹ کے منزل کا عکس دیکھو گے
اسی جگہ مگر امکان حادثہ ہے بہت
بس ایک چیخ ہی یوں تو ہمیں ادا کر دے
معاملہ ہنر حرف کا جدا ہے بہت
مری خوشی کا وہ کیا کیا خیال رکھتا ہے
کہ جیسے میری طبیعت سے آشنا ہے بہت
تمام عمر جنہیں ہم نے ٹوٹ کر چاہا
ہمارے ہاتھوں انہیں پر ستم ہوا ہے بہت
ذرا چھوا تھا کہ بس پیڑ آ گرا مجھ پر
کہاں خبر تھی کہ اندر سے کھوکھلا ہے بہت
کوئی کھڑا ہے مری طرح بھیڑ میں تنہا
نظر بچا کے مری سمت دیکھتا ہے بہت
یہ احتیاط کدہ ہے کڑے اصولوں کا
ذرا سے نقص پہ بانیؔ یہاں سزا ہے بہت
4
پیہم موج امکانی میں
اگلا پاؤں نئے پانی میں
صف شفق سے مرے بستر تک
ساتوں رنگ فراوانی میں
بدن وصال آہنگ ہوا سا
قبا عجیب پریشانی میں
کیا سالم پہچان ہے اس کی
وہ کہ نہیں اپنے ثانی میں
ٹوک کے جانے کیا کہتا وہ
اس نے سنا سب بے دھیانی میں
یاد تری جیسے کہ سر شام
دھند اتر جائے پانی میں
خود سے کبھی مل لیتا ہوں میں
سناٹے میں ویرانی میں
آخر سوچا دیکھ ہی لیجے
کیا کرتا ہے وہ من مانی میں
ایک دیا آکاش میں بانیؔ
ایک چراغ سا پیشانی میں
5
زماں مکاں تھے مرے سامنے بکھرتے ہوئے
میں ڈھیر ہو گیا طول سفر سے ڈرتے ہوئے
دکھا کے لمحۂ خالی کا عکس لاتفسیر
یہ مجھ میں کون ہے مجھ سے فرار کرتے ہوئے
بس ایک زخم تھا دل میں جگہ بناتا ہوا
ہزار غم تھے مگر بھولتے بسرتے ہوئے
وہ ٹوٹتے ہوئے رشتوں کا حسن آخر تھا
کہ چپ سی لگ گئی دونوں کو بات کرتے ہوئے
عجب نظارا تھا بستی کا اس کنارے پر
سبھی بچھڑ گئے دریا سے پار اترتے ہوئے
میں ایک حادثہ بن کر کھڑا تھا رستے میں
عجب زمانے مرے سر سے تھے گزرتے ہوئے
وہی ہوا کہ تکلف کا حسن بیچ میں تھا
بدن تھے قرب تہی لمس سے بکھرتے ہوئے

No comments:

Post a Comment