Thursday, February 23, 2017






اردو گھر پر اس ہفتے کی ادبی شخصیت ۔اردو شعرو ادب کے اہم شاعر منیر نیازی۔
منیر نیازی ۹اپریل ۱۹۲۳ کو ضلع ہوشیار پور میں پیدا ہوئے پورا نام محمد منیر نیازی ابتدائی تعلیم خانپور اور سائینوال میں مکمل کی ۔اردو کے

علاوہ پنجابی میں بھی شعر کئے منیر نیازی اردو شاعری کا ایک ایسا نام جس نے اردو میں شہر اور گاؤں کو  اس طرح دیکھنے اور دکھانے کی کوششکی جس طرح ایک مسافر حیرت زدہ ہوکر چیزوں کو دیکھتا ہے اور ہر بار ایک تجسس اور بے قراری اس کے حصہ میں آتی ہے ۔منیر نیازی معلوم کی کشش سے زیادہ نامعلوم کے خوف میں زیادہ نامعلوم کے خوف میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں ان کی شاعری وسوسوں اور اندیشوں سے عبارت ہے۔ انہیں ہر وقت اس بات کا دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں کچھ ہوں نہ ہوجائے کچھ اس طرح نہ ہوجائے۔منیر نیازی رسک لینے سے ڈرتے ہیں اور یہی ڈر انہیں ایک الگ رنگ سے آشنا کرواتا ہے جس رنگ کی ضرورت اردو شاعری کو تھی بھی۔منیر نیازی نے اردو شاعری کی اس خالی جگہ کو پر کیا ہے انہوں نے ڈر اور خوف کے بیچ کی شاعری کی ہے منیرنیازی ہر وہ کام کرنے کا حوصلہ جٹانے کی کوشش کرتے ہیں جس کے بارے میں معلوم ہے کہ ناممکن ہے۔وہ مبہم نتائج سے ڈرتے ہیں ان کی شاعری بہت حد تک تقسیم کے درد کا اظہار بھی ہے۔انتظار حسین لکھتے ہیں:
’’ہجرت کا تجربہ لکھنے والوں کی ایک نسل کو اردو ادب کی باقی نسلوں سے الگ کرتا ہے
اس نسل کے مختلف لکھنے والوں کے یہاں یہ تجربہ الگ الگ دکھائی دیتا ہے ۔
منیر نیازی کے یہاں اس کا ایسا روپ ابھرا ہے جو ایک نئی دیو مالا کا نقشہ پیش 
کرتا ہے۔باقی نئی شاعری کا کیا ہے وہ تو کسی تجربہ کے حوالے بغیر خالی ٹی ہاؤس 
میں بیٹھ کر بھی کی جاسکتی ہے۔‘‘
(کلیات منیر نیازی۔مضمون ہجرت کا شاعر )

بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا
عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی 
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا

یہ نماز عصر کا وقت ہے یہ گھڑی ہے دن کے زوال کی
وہ قیامتیں جو گزر گہیں تھیں امانتیں کئی سال کی

اپنے گھروں سے دور بنوں میں پھرتے ہوئے آوارہ لوگو
کبھی کبھی جب وقت ملے تو اپنے گھر بھی جاتے رہنا

اپنی ہی تیغ ادا سے آپ گھائل ہوگیا
چاند نے پانی میں دیکھا اور پاگل ہوگیا 

بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
اک آگ سی جذبوں کی مہکائے ہوئے رہنا

ایک وارث ہمیشہ ہوتا ہے 
تخت خالی رہا نہیں کرتے

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو 
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا 

جی خوش ہو ا ہے گرتے مکانوں کو دیکھ کر 
یہ شہر خوف خود سے جگر چاک تو ہوا
 
شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا
پھر مجھے اس شہر میں نا معتبر اس نے کیا 

تم میرے لیے اتنے پریشان سے کیوں ہو 
میں ڈوب بھی جاتا تو کہیں اور ابھرتا 

غیروں سے مل کے ہی سہی بے باک تو ہوا
بارے وہ شوخ پہلے سے چالاک تو ہوا

کچھ وقت چاہتے تھے کہ سوچیں ترے لیے 
تو نے وہ وقت ہم کو زمانے نہیں دیا

میں اس کو دیکھ کے چپ تھا اسی کی شادی میں 
مزا تو سارا اسی رسم کی نباہ میں تھا 
 
 

No comments:

Post a Comment